غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رہنما راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سنگھ پریوار کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیں یا 1947 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔1947میں جموں خطے میں ہندو جنونیوں نے ڈوگرہ فورسز کے ساتھ ملکر لاکھوں مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا تھا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے اسلام آباد، راجوری انتخابی حلقے کے ریٹرننگ آفیسرکے پاس ایک تحریری شکایت درج کرائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے رہنما راجوری پونچھ خطے میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ بی جے پی کی حمایت یافتہ الطاف بخاری کی پارٹی کو ووٹ دیں یا سنگین نتائج کے لئے تیار رہیں۔ واضح رہے کہ الطاف بخاری مقبوضہ جموں و کشمیر میں مودی کے ہندوتوا ایجنڈے کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔پی ڈی پی لیڈر فردوس ٹاک نے کہا کہ ہماری پارٹی نے راجوری اور پونچھ میں بی جے پی لیڈروں کی طرف سے مجرمانہ دھمکیوں کے خلاف آر او کے پاس تحریری شکایت درج کرائی ہے۔ ہم نے شکایت کے ساتھ ثبوت کے طورپر ایک ویڈیو بھی پیش کی جس میں پونچھ میں ایک بی جے پی لیڈر ستیش بھارگو مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ مخصوص پارٹی کو ووٹ دیں یا 1947جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں۔ فردوس ٹاک نے مطالبہ کیا کہ دھمکیاں دینے کے واقعات کی مکمل تحقیقات کی جائے۔
بھارت میں لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے میں 19 اپریل کو پولنگ ہوگئی ہے۔حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی مسلسل تیسری مرتبہ کامیابی کے دعوے کر رہی ہے۔بھارت میں یہ معاملہ بھی موضوعِ بحث ہے کہ مسلمان ووٹرز اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے۔یہ ابھی زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے جب بھارتی مسلمان حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے اور ان کا جھکاؤ جس پارٹی کی طرف ہوتا تھا اس کی کامیابی یقینی سمجھی جاتی تھی۔ لیکن مبصرین کے مطابق 2014 کے بعد سے مسلم ووٹ غیر اہم ہو گئے اور اب مسلمانوں کا انتخابی رجحان نتائج پر اثرانداز نہیں ہوتا۔
تاہم اس الیکشن میں یہ بات موضوعِ بحث ہے کہ مسلمان کس پارٹی کو ووٹ دینے جا رہے ہیں۔ گو کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں مسلم ووٹوں کے حصول کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہیں لیکن بی جے پی اس محاذ پر بھی سرگرم ہے۔لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 65 ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 30 سے 80 فی صد تک ہے۔ یہ حلقے اترپردیش، آسام، بہار، کیرالہ، جموں و کشمیر، مغربی بنگال اور تیلنگانہ وغیرہ میں ہیں۔ جب کہ 35-40 سیٹیں ایسی ہیں جن پر مسلمانوں کی قابلِ لحاظ آبادی ہے۔
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بی جے پی کی نظر مسلم ووٹوں پر ہے۔ اس کے اقلیتی شعبے کے مطابق اس کی جانب سے ملک بھر میں مسلمانوں کے درمیان 23 ہزار پروگرام منعقد کر کے 50 لاکھ مسلمانوں سے رابطہ قائم کیا گیا ہے۔ جب کہ 18 لاکھ سے زیادہ مودی دوست بھی بنائے گئے ہیں۔مسلمانوں کو مودی کے قریب لانے کے لیے ’نہ دوری ہے نہ کھائی ہے، مودی ہمارا بھائی ہے‘ کا نعرہ بھی لگایا جا رہا ہے۔ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے کے حوالے سے مسلم خواتین کو بھی قریب لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔لیکن متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اس کی وجہ سے ان کے ایک بڑے طبقے میں ڈر کا ماحول ہے۔ لہٰذا وہ کسی بھی صورت میں بی جے پی کی جانب مائل نہیں ہوں گے۔ البتہ ان کی اکثریت اپوزیشن کے محاذ ’انڈیا‘ کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔
مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق صدر، ماہر اسلامیات اور سینئر تجزیہ کار پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں کہ بی جے پی کو کسی بھی قسم کی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ مسلمان اپنی صوابدید کے مطابق ووٹ دیں گے۔ان کے مطابق بہار اور اترپردیش میں لالو پرساد یادو اور ملائم سنگھ صرف یادو برادری کے ووٹوں کی حمایت سے حکومت نہیں کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ مذکورہ دونوں رہنماؤں کو مسلمان اجتماعی طور پر ووٹ دیتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے بی جے پی نے ملائم سنگھ کو ’ملّا ملائم‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔جماعتِ اسلامی ہند کے نائب امیر انجینئر محمد سلیم کہتے ہیں کہ نام نہاد سیکولر جماعتوں کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ ان کو مل رہا ہے اس لیے انھیں مسلم ووٹوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ وہ اس لیے بھی مسلمانوں کا نام نہیں لیتیں کہ ان کو خدشہ ہے کہ اس صورت میں ان کو ہندو مخالف پارٹی ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مسلمان اپوزیشن کے رویے سے مطمئن تو نہیں ہیں۔ لیکن وہ ملک کو فسطائیت کی طرف جانے سے روکنے کے لیے ان کے رویے کو گوارا کر رہے ہیں اور وہ ان کے ان امیدواروں کی حمایت کریں گے جن کے بارے میں محسوس ہو گا کہ وہ جیت رہے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کے بی جے پی کی طرف جانے کی بات ہے تو ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کو مسلم نہیں ہندو ووٹ چاہیے۔ اس کے لیے تمام تر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مسلم مخالف اقدامات بھی اسی لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔