”وردی بدلو“ سے ”وردی پہنو“ تک

کچھ عہدے اور پیشے بڑے منافع بخش اور طاقتور ہوتے ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں ریاستی طاقت کا سب سے بڑا سرچشمہ پٹواری ہوتا ہے۔ سینہ در سینہ منتقل ہوتی ایک مزاحیہ کہانی ہے کہ ایک دفعہ سول جج اور پٹواری کی بیویوں کی آپس میں دوستی تھی پٹواری کی بیوی اکثر اسے تازہ خالص دودھ، دیسی گھی شہد، ساگ مکئی کا آٹا اور پتہ نہیں کیا کیا بھیج دیتی یہ ساری نعمتیں پٹواری صاحب کے گھر کسانوں کی طرف سے بھیجی جاتی تھیں۔ اس لیے نہیں کہ کسان پٹواری کی عزت کرتے تھے بلکہ اس خوف سے کہ پٹواری ناراض ہو گیا تو وہ قہر بن کر ٹوٹے گا۔ جج صاحب کی بیوی پٹواری کی بیوی سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے دعائیں مانگنا شروع کر دیں کہ یا اللہ میرے میاں کو بھی پٹواری بنا دے تا کہ ہمارے اوپر بھی لطف و کرم کی یہ بارشیں برسنا شروع ہو جائیں۔

یہ حکایت ہمیں وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز کی اس معصوم سی خواہش کی تکمیل پر یاد آئی ہے جس میں وہ پولیس کانسٹیبل کی وردی پہن کر وومن پولیس دستے کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شریک ہوئیں۔ یہ بظاہر تو ایک نان ایشو تھا مگر اس کا ردعمل اتنا شدید تھا کہ اس کی بازگشت ملک کی پارلیمنٹ کے فلور پر بھی سنی گئی جہاں قانون کی پیدائش ہوتی ہے۔ جس طرح جج صاحب کی معصوم بیوی اپنے میاں کی پروموشن کے لیے اس کے پٹواری بننے کی دعا مانگتی تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی یہ معصوم اور بے ضرر سی خواہش اس سے ذرہ برابر مختلف نہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا چیف ایگزیکٹو بھی اندر سے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اور وردی کو اپنے عہدے سے زیادہ طاقتور خیال کرتا ہے تو اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں طاقت کا توازن کہاں ہے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ برسراقتدار سیاسی پارٹیاں اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے ریاستی طاقت کا سارا استعمال وردی کے ذریعے ہی کرتی ہیں۔ وردی کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ لانڈھی جیل سے جب نواز شریف کو پرویز مشرف کا طیارہ اغوا کرنے کے جرم میں عدالت لایا گیا تو جیل واپسی پر ان کے ہتھکڑیوں سے لیس ہاتھوں میں کچھ اخبار تھے جو ان کے وکلا نے انہیں دیئے تھے۔ پولیس وردی میں ایک شخص نے نہایت بدتمیزی سے وہ اخبار ان کے ہاتھ سے چھین لیے اور کہا کہ اس کی اجازت نہیں ہے۔اس سے آپ کو وردی کی بے پناہ طاقت کا اندازہ ہو جانا چاہیے لیکن صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے لیے لمحہئ فکریہ یہ ہونا چاہیے تھے کہ پولیس کی اندھی اور بے رحم طاقت کی کانٹ چھانٹ یا curtailment کی جائے مگر انہوں نے تو علامتی طور پر وردی کے آگے سرنڈر کر دیا۔

محترمہ مریم نواز کی وردی کے ساتھ رومانویت انہیں ورثے میں ملی ہے۔ میں نواز شریف کو بھی سیاست میں آنے سے پہلے وردی پہننے کا بہت شوق تھا یہ وہ دور تھا جب ضیاء الحق کے زمانے میں گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی کے ساتھ شریف خاندان کی مراسم کی پینگیں بلندیوں پر تھیں۔ جنرل غلام جیلانی نے نواز شریف کو خصوصی طور پر لاہور سول ڈیفنس کی رضا کار فورس میں غالباً چیف وارڈن کا اعزازی عہدہ دیا جس میں وردی پر تین پھول ہوتے تھے ان کی وردی میں ملبوس جنرل غلام جیلانی کے ساتھ ایک یادگار تصویر آج کل پھر سوشل میڈیا پر ہے جس میں نواز شریف وردی میں ہیں مگر جنرل صاحب سول کپڑوں میں ہیں۔

مریم نواز جتنا سیاسی قدوقامت رکھنے والے کسی لیڈر کے لیے جو کہ اپنے آپ کو اگلے وزیر اعظم کے طور پر بھی پوز کر رہا ہو اسے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ظاہری ٹپ ٹاپ سے اوپر اٹھ کر کچھ کرنے کا عزم دکھانا چاہیے۔ سیاست ایک نہایت سنجیدہ اور حساس پیشہ ہے جس میں آپ کا لمحہ لمحہ کی مانیٹرنگ ہو رہی ہوتی ہے۔ اس میں احتیاط کا دامن بہت ضروری ہے۔ پتہ نہیں کہ ان کے قریب ترین ہدایت کار عرفان صدیقی اور پرویز رشید نے انہیں اس فیصلے سے منع کیوں نہیں کیا یا پھر اس کی بازگشت کا اندازہ نہیں لگا سکے نہ ہی آئی جی پنجاب کی طرف سے اس کی کوئی مزاحمت کی گئی جہاں تک آئی جی یا کسی بڑے سے بڑے بیورو کریٹ کا سیاسی باس کے سامنے طرز عمل کا تعلق ہے اس کو واضح کرنے کے لیے تو انور مسعود کی مشہور پنجابی نظم ”اج کی پکائیے“ ہی کافی ہے جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ آپ کا ماتم آپ کی احمقانہ تجویز پر بھی عش عش کر اٹھتا ہے اور تعریفیں کرنا شروع ہو جاتا ہے۔

میں یہاں پر ایک ذاتی تحریر شیئر کرنا مناسب سمجھتا ہوں میری بیٹی ماشاء اللہ ڈاکٹر ہے اور گردے کی پیوند کاری میں مہارت حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ یہ جب سکول میں پڑھتی تھی تو وہاں ٹیبلو پروگرام بہت ہوتے تھے وہ ہر ٹیبلو شو کا حصہ ہوتی تھی کبھی پولیس کی وردی کبھی فوج کی وردی کبھی ڈاکٹر کبھی انجینئر الغرض ہر قسم کا کردار کرتی تھی ہمیں یاد ہے ان ٹیبلو شوز میں 14 اگست کو بچوں میں سے علامہ اقبال اور قائد اعظمؒ بھی بن جاتے تھے جب یہ سینئر کلاس میں چلی گئی تو ہم اس کی ٹیبلو ٹیچر یا choreographer کے پاس گئے اور انہیں استدعا کی کہ اسے اب ٹیبلو ٹیم سے سبکدوش کر دیں یہ اب بڑی ہو گئی ہے۔ عرفان صدیقی اور پرویز رشید صاحب کو بھی چاہیے تھا کہ وہ آئی جی صاحب کو یہ کہہ دیتے کہ ہماری چیف ایگزیکٹو صاحبہ کو یہ رول نہ کرنے دیں وہ اب بڑی ہو گئی ہیں اور اگلی دفعہ کے وزیراعظم کی دوڑ میں شامل ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ گورنر اور وزیراعلیٰ علامتی طور پر پولیس کی وردی نہیں پہن سکتے ہیں لیکن پولیس کے وردی کے ساتھ جو عوامی perception وردی کا حصہ بن چکے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ پولیس میں اصلاحات کے لیے کچھ کیا جائے یا وردی اور عوام آمنے سامنے ہوں تو آپ وردی کے بجائے عوام کا ساتھ دیں یہ وہ محکمہ ہے جس میں ریفارم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے مگر ہماری ویژن وردی ہے آگے کچھ نہیں دیکھ پاتی۔ شہباز شریف جب وزیراعلیٰ تھے تو وہ سمجھتے تھے کہ وردی بدل دو پولیس خودبخود بدل جائے گی ان کی سیاسی جانشین ان سے خیالات کے گھوڑے دوڑانے میں ان سے بھی آگے نکل گئیں شہباز شریف کے وردی بدل دو کے نعرے کو انہوں نے ’وردی پہن لو‘ میں تبدیل کر دیا مگر حقیقی تبدیلی اب بھی دور بہت دور کی بات ہے اگر آپ ایک ہی عمل کو بار بار دہراتے جاتے ہیں اور ہر بار یہ امید رکھتے ہیں کہ اس بات نتیجہ کچھ اور نکلے گا تو پھر آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ آپ کتنے عقلمند ہیں۔