یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں

پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان کیا کسی قسم کی گفتگو ہونے جا رہی ہے؟ اِس بارے وثوق سے ابھی کچھ کہنا مشکل ہے البتہ ماضی کے واقعات کے پیشِ نظر اتنا یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناممکن یا بہت زیادہ مشکل نہیں جب بھی دبائو کسی فریق کی برداشت سے باہر ہوا یا کسی کوکسی کی ضرورت محسوس ہوئی تو نہ صرف فریقین بات چیت پر آمادہ ہو گئے بلکہ کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر تصفیہ بھی ہو گیا۔ ابھی ایک طرف سے رویہ بظاہر سخت ہے لیکن معتوب فریق کی برداشت جواب دینے لگی ہے اور وہ اب بات چیت کی التجا و تمنا کرنے لگا ہے، بظاہر یہ تمنا ابتدائی نوعیت کی ہے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رئوف حسن کہہ چکے کہ مقتدرہ سے بات چیت کے لیے کل بھی تیار تھے، آج بھی ہیں، آئندہ بھی رہیں گے۔ علاوہ ازیں تحریکِ انصاف کے سینیٹر اعجاز چودھری اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ بھی بانی اور کور کمیٹی کے نام جیل سے کھلے خط میں مذاکرات کی تجویز پیش کر چکے ہیں جبکہ شہر یار آفریدی براہ راست عسکری قیادت سے بات چیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ابھی ایسی باتیں دلی دور است والی بات ہیں پھر بھی یہ کسی حد تک ایک اہم پیش رفت ہے کہ مقابلے کا دعویدار فریق چاہے کمزوری اور تھکاوٹ کا اعتراف کرتے ہوئے ہی سہی نہ صرف مل بیٹھنے پر آمادہ ہے بلکہ مزاحمت کا بیانیہ چھوڑ کر پُرامن سیاست کی طرف آنے پر تیار ہے۔ اس سے بال مقتدرہ کے پاس آ گئی ہے اگر وہ نرمی کا مظاہرہ کرتی ہے جو ناممکن نہیں تو سیاسی محاذ پر ٹھہرائو آ سکتا ہے اگر بال کو ٹھوکر رسید کر دی گئی تو بات چیت میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔

ایک وقت تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھانے سے پیپلز پارٹی اور مقتدرہ میں تنائو خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا۔ پی پی کے توڑ کے لیے پنجاب سے کئی ایسے سیاسی خاندانوں کی خاص طور پر سرپرستی کی گئی جن کی عوامی مقبولیت کچھ خاص نہ تھی، اسی دور میں لاہور جیسے سیاسی سرگرمیوں کے مرکز سے شریف خاندان کو سیاسی میدان میں اُتارا گیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی پر بھی خاص طور پر دستِ شفقت رکھا گیا پھر وہ وقت بھی آیا جب پی پی سے دوری کا تاثر رکھنے کے ساتھ پسِ پردہ سلسلہ جنبانی کا آغاز ہوا حالانکہ سیاسی نبض شناس ایسی کسی بات کو ناممکن قرار دے رہے تھے۔ جس کے نتیجے میں 1988 کے انتخابی نتائج کے بعد بے نظیر بھٹو کو سربراہ مملکت تسلیم کر لیا گیا۔ اِس طرح بے نظیر بھٹو نہ صرف پاکستانی تاریخ کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں بلکہ دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں پاکستان ایسا پہلا اسلامی ملک کہلایا جہاں ایک خاتون وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر پہنچیں حالانکہ وہ اقتدار کی مدت پوری نہ کر سکیں مگر کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم ہونے کا اعزاز اپنے نام کر گئیں۔ دوسری بار بھی اُن کا اقتدار میں آنا رضا مندی کے بغیر ممکن نہ تھا اب تو خیر پی پی کی موجودہ قیادت خاصی چہیتی ہے اگر پی ٹی آئی بھی زمینی حقائق تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے تو یہ کوئی انہونی نہیں۔

شریف خاندان سیاسی حوالے سے بہت خوش قسمت رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست کا آغاز ہی مقتدرہ کی رضا مندی سے کیا جس کے صلے میں نہ صرف پنجاب بلکہ وفاق میں بھی یہ خاندان اب پانچویں دفعہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب حاصل کر چکا ہے۔ اِس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ اِس خاندان نے خود سری کی کافی سزا پائی ہے نہ صرف قیادت جلا وطن ہوئی بلکہ جماعت بھی کئی حصوں میں تقسیم ہوئی جس سے نواز شریف نے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ سیاست کرنی اور اقتدار میں رہنا ہے تو ٹکرائو سے یہ دونوں خواہشیں پوری نہیں ہو سکتیں، اسی لیے اب وہ افہام و تفہیم سے کام کر رہے ہیں۔ حقیقت کے ادراک سے اُنہیں یہ فائدہ ہوا کہ ن لیگ نہ صرف پی ٹی آئی کو اقتدار سے نکالنے میں کامیاب ہوئی بلکہ رواں برس آٹھ فروری کے انتخابی نتائج میں دوسرے نمبر پر آنے کے باوجود آج حکمران ہے جبکہ مریم نواز پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ منتخب ہو چکی ہیں۔ ظاہر ہے اتنے فوائد پسندیدگی کی سند حاصل کیے بغیر ملنا کسی طور ممکن نہ تھا مگر مقتدرہ سے بات چیت پر پی ٹی آئی کی رضامندی خطرے کا ایسا الارم ہے جو ہر دو صورت میں نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔ اگر واقفانِ حال کے مطابق پی ٹی آئی اور مقتدرہ میں بات چیت سے اُلجھے معاملات سلجھ جاتے ہیں تو اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی تو بھی روا سختی کسی حد تک نرمی میں بدل سکتی ہے۔ اِس طرح پی ٹی آئی کو اپنی صفیں درست کرنے اور عوام رابطہ بہتر بنانے پر عائد پابندیاں ختم ہونے کا امکان ہے اسی لیے واقفانِ سیاست کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال کا توڑ مقتدرہ کا منظورِ نظر رہے بنا ممکن نہیں اور موجودہ مقام کیسے برقرار رکھنا ہے یہ حکمران جماعت کی حکمت و تدبر پر منحصر ہے۔

معتوب جماعت پی ٹی آئی بات چیت کے حوالے سے مکمل طور پر یکسو نہیں بلکہ منقسم ہے اسی طرح حکمران جماعت ن لیگ میں بھی اختلافِ رائے اب واضح ہونے لگا ہے۔ پنجاب کی صوبائی تنظیم واشگاف انداز میں نواز شریف کو جماعت کی قیادت سنبھالنے کی قرارداد منظور کر چکی ہے۔ رانا ثنااللہ تو ایک انٹرویو میں ملک کی خاطر عمران خان سے نواز شریف کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی کا اعتراف بھی سامنے آ چکا بلکہ بیانیہ مزاحمت رکھنا ہے یا تابعداری کا، اِس کا اختیار بھی قائد ن لیگ کے پاس ہونے کا کہہ چکے ہیں۔ حال ہی میں یہ بھی کہہ چکے کہ اگر تمام جماعتیں مل بیٹھ کر طے کر لیں کہ ہر اِدارہ اپنے آئینی کردار تک محدود رہے تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور اگر ملک میں سیاسی استحکام آ جائے تو کسی کو اعتراض کیوں ہو گا، ایسے بیانات ن لیگ میں ہلکورے لیتی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ سعودیہ دورے سے الگ رہنا، مریم نواز کی رہنمائی اور شہبازشریف سے فاصلہ، عین اُس وقت جب وزیرِ اعظم سعودیہ دورے پر ہیں اسحاق ڈار کی نائب وزیرِ اعظم کی تقرری خاندان اور جماعت میں جنم لیتی متضاد سوچ کی تصدیق ہے۔ 2012 میں پرویز الٰہی نائب وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے اِس لیے اسحاق ڈار کی تقرری باعثِ تعجب نہیں البتہ اِس حوالے سے اختیار کی گئی جلد بازی حیران کُن ضرور ہے جو جماعت میں پنپتی اختلافی سوچ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اِس وقت ن لیگ بر سرِ اقتدار ہے بطور حکمران جماعت گنوانے کے لیے اُس کے پاس بہت کچھ ہے جبکہ پی ٹی آئی تو پہلے ہی راندۂ درگاہ ہے وہ سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنے سے بہت کچھ حاصل کر سکتی ہے کیونکہ یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے، اصل امتحان ن لیگ کا ہے دیکھیں وہ کیسے اپنا بچائو کرتی ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ ن لیگ مزاحمت کا بیانیہ اپنانے کی روش پر گامزن ہے تو بے جا نہ ہو گا۔