طفل تسلیاں اب نہیں !

اہل اقتدار جو فیصلے کر رہے ہیں ان سے عوام کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں اس سے انہیں کوئی غرض نہیں وہ آنکھیں بند کیے اقتدار کی گاڑی کو رواں رکھنے ہی میں دلچسپی رکھتے ہیں جس سے صورت حال کی بہتری کا امکان کم ہی نظر آتا ہے؟
آج پورے ملک میں معاشی حالت دگرگوں ہونے کے سبب ایک بے چینی کی لہر ابھری ہوئی ہے اور اس حوالے سے سنجیدگی سے غور نہیں ہو رہا ہاں مگر پی ٹی آئی کو کھڈے لائن لگانے سے متعلق ضرور سنجیدگی دکھائی جارہی ہے جبکہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے بارے میں سوچے تاکہ وہ اس کے ہم نوا بن سکیں ایسا کچھ سوچا بھی گیا ہے کہ گندم کی قیمت انتالیس سو روپے فی من مقرر کی گئی ہے تاکہ شہروں میں رہنے والے کم قیمت میں آٹا خرید سکیں مگر یہ نہیں سوچا گیا کہ کسانوں کو کس قدر نقصان برداشت کرنا پڑے گا کہ جنہوں نے پانچ چھ ماہ تک گندم کو تیار کرنے کے لئے سخت محنت کی مہنگی کھاد لے کراس کو پروان چڑھایا کٹائی بوائی و دیگر اخراجات الگ اٹھائے علاؤہ ازیں وہ موسمیاتی تبدیلی سے بھی متاثر دکھائی دیتے ہیں ۔اس صورت میں انہیں بچت کچھ نہیں ہوئی لہذا وہ چیخ رہے ہیں دہائی دے رہے ہیں ان کی تنظیمیں باقاعدہ احتجاج کا پروگرام بھی بنا رہی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سراسر زیادتی ہے وہ رْل گئے ہیں ان کو کئی پریشانیوں نے آن گھیرا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ غریب طبقے کوآسانیاں اور سہولتیں فراہم کی جائیں مگر یہ کوئی طریقہ نہیں کہ پچیس تیس فیصد کو تو فائدہ پہنچایا جائے اور باقی کو نظر انداز کر دیا جائے لہذا حکومت کو فی الفور اس اہم ترین مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ کسانوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں سیاسی سماجی اور معاشی صورت حال کی طرف کہ جس سے غریب عوام سخت بے چین دکھائی دیتے ہیں وہ انتہائی بدگمان و بد دل ہیں انہیں اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں سے اختلاف ہے کیونکہ وہ عوام دوستی کے معیار پر پورا نہیں اترتیں جس سے ان کی زندگیوں میں ایک کہرام مچا ہوا ہے ایک طوفان برپا ہے۔بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں نت اضافے نے ان کی کمر جھکا دی ہے وہ اس سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا؟ حکومت مگر ان کے جیون میں خوشیاں لانے کی کوئی سبیل نکالتی ہوئی نظر نہیں آ رہی یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ تنہا معاملات مملکت نہیں چلا سکتی لہذا وہ سطحیت کا سہارا لے رہی ہے کہ کبھی کوئی راستہ اختیار کرتی ہے اور کبھی کوئی تاکہ عوام کو مطمئن کیا جا سکے مگر وہ بھول رہی ہے کہ اب عوام طفل تسلیوں سے بہلنے والے نہیں انہیں کچھ کرکے دکھایا جائے تب ہی انہیں یقین آئے گا کہ ان کے حکمران ان کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے وگرنہ تو وہ بے اعتمادی کے بھنور میں گھرے ہوئے ہیں آخر کب تک وہ ان پر یقین کریں ان کے وعدوں پر گزارا کریں۔انہیں ہمیشہ الجھایا گیا بیوقوف بنایا گیا لہذا سچ یہی ہے کہ ان کے شعور نے پہلی بار صحیح معنوں میں آنکھ کھولی ہے اور حکمران طبقات کو جھنجھوڑا ہے اب وہ مزید انہیں تسلیاں نہیں دے سکتے لہذا وہ ان سے رخ پھیر چکے ہیں۔
عام انتخابات سے لے کر ضمنی تک دیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر حکومتیں ان کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے بے بس ہیں تو وہ بھی اپنے ضمیر کے ہاتھوں بے بس ہیں۔انہیں وہ حکمران چاہیں جو ان کو پریشانیوں سے نجات دلاتے ہوں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت کیوں آزاد پالیسی نہیں اپنا رہی وہ آزاد تجارت کرکے ملک کو معاشی بد حالی سے کیوں چھٹکارا نہیں دلا رہی ؟ اگر وہ فری اکانومی کی جانب قدم بڑھائے تو وہ اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے!
بھولے بادشاہو ! جب حکومتیں محدود و مشروط ہوں اقتداری حضرات اپنے اثاثوں کو محفوظ کرنے کی فکر میں ہوں تو دوسروں کے لئے کچھ نہیں بچتا لہذا سرمایہ داری نظام کی حامی حکومتیں عوامی مفاد کا خیال بہت کم ہی رکھتی ہیں ہماری ان باتوں سے اہل اختیار خفا تو ہوں گے مگر کیا کریں ہم عوام کو مہنگائی بے روزگاری ناانصافی اور ٹیکسوں کی یلغار نے مایوس کر دیا ہے لہذا چیخیں تو بلند ہوں گی اگر وہ نہیں سن سکتے تو کانوں میں روئی ٹھونس لیں نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
اہل اقتدار کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ ذاتی فیصلوں کے بجائے عوامی فیصلے کریں جو ان کے مفاد میں ہوں اب جب بجلی کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ کیا جا رہا تو اس سے وہ خوش تو نہیں ہوں گے اس سے بھی وہ خوشی محسوس نہیں کریں گے کہ ان کی ایک تعداد کو اگر آٹا سستا مل رہا ہے تو اسے بجلی گیس اور پٹرول کے علاوہ روز مرہ کی دیگر اشیا مہنگے داموں مل رہی ہیں یعنی ایک ہاتھ دے اور دوسرے ہاتھ لے والی صورت حال ہے۔ یہ مداری ہے اس سے کوئی خاص کامیابی حاصل ہونا ممکن نہیں لہذا ہمیں ڈکٹیشن کلچر کا خاتمہ کرکے معیشت کو سنبھالا دینا ہو گا ستتر برس سے ڈکٹیشن لے کر آج ہم ایک ایک ڈالر کے محتاج ہو گئے ہیں ہماری معاشی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے آئی ایم ایف نے ہمارے گرد شرائط کا شکنجہ مزید کس دیا ہے وہ ڈراتا بھی ہے دھمکاتا بھی ہے۔جب عوام اس سے گلو خلاصی کا کہہ رہے ہیں تو اہل اقتدار کو کیا پریشانی ہے کہ وہ نعرہ مستانہ بلند نہیں کر رہے در اصل وہ اپنی ان جائیدادوں اور دولتوں جو ان کے ملکوں میں ہیں کی وجہ سے مصلحتوں کا شکار ہیں ان کی مصلحتیں عوام کے لئے مشکلات کے انبار لگا رہی ہیں ان کا ہر دن انہیں تڑپا رہا ہے وہ اپنے حسین خواب بھول چکے ہیں وہ ان مسکراہٹوں سے محروم ہو گئے ہیں جو کبھی ان کے ہونٹوں پر بکھرا کرتی تھیں۔اب تو انہیں اذیتوں نے ’’جپھا‘‘ڈال لیا ہے اور انہیں چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہیں ان کی اہمیت اب نہیں رہی ان کے خیالات کو پس پشت ڈالا جا چکا ہے جس سے وہ خود کو یک وتنہا محسوس کر رہے ہیں۔ہم نے کتابوں میں پڑھ رکھا ہے جب رات کی تاریکی گہری ہو جاتی ہے تو اس میں سے نئی صبح طلوع ہوتی ہے۔اگرچہ ہمارے حکمران یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ اپنی دانش و حکمت سے سب قابو میں کرلیں گے مگر انہیں تاریخ پر ایک نظر دوڑا لینی چاہیے کہ جب انسانوں کا ہجوم متحد ہوتا ہے تو زنداں کی سلاخیں پگھل جایا کرتی ہیں لہذا عرض ہے تو یہ کہ فیصلے عوامی ہوں تب ہی اقتدار کے مزے لوٹے جا سکتے ہیں۔