سراج الحق سے حافظ نعیم الرحمن تک

سراج الحق سے حافظ نعیم الرحمن تک کا سفر اس ملک کے باشندے کیا سمجھیں گے انہیں یہ نہیں معلوم ایسی خوبصورت جماعت کہاں ہوگی جہاں امیر جماعت خود اگلی قیادت تیار کرتا ہے ایسے ماحول میں جہاں عہدوں کی رسہ کشی ہوتی ہے، لیکن یہاں کی تو دنیا ہی مختلف ہے ایسے لگتا ہے جیسے یہ قائد کسی دوسری دنیا کے ہیں محبت، اخلاص، سخن دل نوازی کے پیکر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے کیا خوبصورت تعریف کی ہے اس قیادت کے لئے
نِگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
اس قیادت کے انتخاب کو بہت سے لوگوں نے خوبصورت انداز میں ہدیہ تبریک پیش کیا ان کے الفاظ استعمال کرنے کی بھی کہیں کہیں جسارت کروں گا، سورہ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے فرمایا: ’’ایمان لانے والوں میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ (جان نثاری کا) جو عہد کیا تھا اس میں سچے اترے۔ ان میں بعض تو اپنی نذر پوری کر گئے اور بعض ان میں سے (وقت آنے کے) منتظر ہیں۔ انہوں نے (اپنے روئیے میں) ذرا بھی تبدیلی نہیں کی۔‘‘ شاعر نے کیا خوب فرمایا
آنے والے تیری راہوں میں پلکیں بچھا دوں
جانے والے تیرے قدموں سے لپٹ کر رولوں
حافظ نعیم الرحمن نومنتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان کی استقامت کیلئے بہت ساری دعائیں ہیں اے اللہ حافظ نعیم الرحمٰن کو جرأت، ہمت اور قوت فیصلہ سے نواز اور سراج الحق نے حق ادا کیا جنہوں نے قرون اولیٰ کی مثال تازہ کر دی، جماعت اسلامی نے جانے والے خوش ہیں کہ بوجھ اتر گیا ہے اور آنے والے ذمہ داری کے احساس سے آبدیدہ!
تاریخ اسلام اور جماعت اسلامی کی درخشاں خوبصورت روایت دہرائی گئی ہے وراثت سے پاک قیادتِ کا یہ سفر صرف جماعت اسلامی کی خصوصیت ہے۔ حقیقت میں اگر سراج الحق کی بات کروں تو کسی نے کیا خوب لکھا کہ سب بدل گئے، ابو عبیدہؓ نہیں بدلے! حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ جلیل القدر اور عشرہ مبشرہ میں سے ایک صحابی، مہاجرین مکہ کے عظیم سردار اور فاتح شام تھے۔ دور فاروقی میں کافی عرصے سے اسلامی لشکر مختلف محاذوں پر پڑاؤ ڈالے ہوا تھا، کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ خبر گیری کیلئے مدینہ سے شام پہنچے،
اور حضرت ابو عبیدہؓ کی رہنمائی میں روزانہ مختلف محاذوں کا معائنہ کرنے لگے۔ کافی دن حضرت عمرؓ نے محسوس کیا کہ ابو عبیدہؓ مجھے ہر جگہ لے جاتے ہیں، لیکن آداب میزبانی اور قربت کے بر خلاف اپنی رہائش گاہ نہیں لے جاتے۔ عمرؓ اس معاملے میں بہت حساس تھے، کئی دن گزر گئے تو ابو عبیدہؓ سے شکوہ کیا۔ ابو عبیدہؓ بھی عمرؓ کے مزاج سے واقف تھے، بولے آج لے چلوں گا۔ دن کی مصروفیت سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو عبیدہؓ خلیفہ وقت کو اپنی رہائش گاہ لے گئے۔ ایک بوسیدہ سی عمارت تھی، جس پر کوئی محافظ کھڑا تھا نہ دروازہ لگا ہوا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ایران عراق اور مصر کی فتوحات سے سارے مسلمان مالا مال ہو چکے تھے۔ اندر داخل ہوئے تو زمین پر سونے کیلئے ایک چٹائی اور چادر پڑی تھی۔ ایک کونے میں پانی کا مشکیزہ اور کٹورہ، دوسرے کونے میں چند اینٹوں پر مٹی کی ہانڈی رکھی تھی … اور ادھر ادھر چند کپڑے پڑے تھے۔ عمرؓ نے کمرے کی یہ حالت دیکھی تو روتے ہوئے ابو عبیدہؓ سے لپٹ گئے اور انہیں چومنے لگے۔ واپسی میں یہی جملہ ان کی زبان پر جاری تھا کہ: سب بدل گئے! ابو عبیدہؓ نہیں بدلے۔
میں جب سراج الحق کی سادگی دیکھتا تو مجھے ابو عبیدہؓ یاد آ جاتے۔ وہ کئی مرتبہ مخلوط حکومتوں میں صوبائی وزیر خزانہ رہے، طویل عرصہ سینیٹر رہے لیکن ان کی اور ان کے خاندان کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا، انہوں نے امارت کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ سب سے بڑا کام جو انہوں نے کیا وہ جماعت اسلامی کو اپنی پہچان دی، نظریاتی سیاست جو اتحادی سیاست کی نذر ہو گئی اسے زندہ کیا اس میں کوئی شک نہیں ایک عرصہ جماعت اسلامی کو اتحادی سیاست نے جو نقصان پہنچایا تھا اسے دوبارہ بحال ہونے میں وقت لگے گا۔
جماعت اسلامی کے ذمہ داران کو ایک دوست نے مثال دے کر سمجھایا ہمارے ایک قریبی عزیز ایک مالیاتی ادارے سے بڑی پوسٹ پر ریٹائر ہوئے، میں نے ان سے پوچھا: ’’آپ کو وہاں کے دوست یاد آتے ہوں گے کیا آپ کبھی ادارے کا چکر لگاتے ہیں؟‘‘۔ بولے: ’’کسی اور کو اپنی سیٹ پر دیکھنا بہت مشکل کام ہے۔ وہ گارڈ جو میری گاڑی کا لپک کے دروازہ کھولتا تھا، مجھے سلیوٹ مارتا تھا، اب وہ مجھے دیکھ کے نظریں چرائے یہ مجھ سے برداشت نہیں ہو گا‘‘۔
یہ ہے انسانوں کی دنیا مگر اب آئیے اس دنیا میں۔ 10 سال تک امیر جماعت رہنے والے سراج الحق کو جب سٹیج پہ بلایا جاتا ہے تو انہوں نے سامنے بیٹھے حافظ نعیم الرحمن (جنہوں نے چند گھڑی پہلے حلف اٹھایا ہے) کو بار بار ’’محترم امیرِ جماعت‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ حافظ نعیم الرحمن دوران تقریر جب سراج الحق کا ذکر کرتے ہوئے پُرنم آنکھوں سے کہتے ہیں: ’’میں گواہ ہوں کہ انہوں نے اپنا پورا زور اس منصب میں لگایا انہوں نے اپنے شب و روز میں سے کچھ بھی بچا کے نہیں رکھا، جماعت اسلامی کو عوامی جماعت بنانے کے لیے ملک بھر میں دورے کیے، ان تھک تگ و دو کی۔‘‘
سابق امیرِ جماعت محترم سراج الحق کے الفاظ کے ترازو میں جماعت کی اقدار کا وزن کیجئے، میں خوش نصیب ہوں مجھے امارت ملی تو منور حسن صاحب سے جو ایک درویش صفت انسان، ولی اللہ اور حق و صداقت کا پیکر تھے۔ اب میں جس فرد کو امارت منتقل کر رہا ہوں وہ علم اور عمل میں مجھ سے کہیں آگے ہے۔ میں نے حافظ صاحب کو بتایا کہ میں مثالی امیر تو نہیں تھا مگر جماعت کا مثالی کارکن ضرور ہوں، کارکنان کا جم غفیر وقفے وقفے سے کبھی مرد مومن مرد حق سراج الحق اور کبھی حافظ حافظ کے نعرے لگا رہا تھا۔ جماعت اسلامی کا ہیڈ کوارٹر منصورہ ایک تاریخ اپنے سینے میں اتار رہا تھا۔
حافظ نعیم رحمان نے کہا: میں محترم سراج الحق کی سرپرستی میں کام کروں گا، وہ جماعت اسلامی کو جہاں تک لے گئے ہیں اب اس سے آگے کا سفر شروع ہو گا۔ یہ امیر اور ناظم کی اصطلاحات تو دستوری مجبوریاں ہیں۔ ہم سب جماعت اسلامی کے کارکن ہیں۔ یہاں کوئی منصب کے حوالے سے کسی سے کم تر یا برتر نہیں ہے۔ ہم سب ایک مشن کے علمبردار رضاکار ہیں۔
یہ وفا کے راستے ہیں۔۔
یہ عزیمت کے راستے ہیں۔۔
اس راہ میں لٹ کر بھی خسارہ نہیں ہوتا۔ یہاں نامرادیوں اور مایوسیوں کا کوئی گزر نہیں۔ ایسی قیادت اور جماعت کے بارے میں علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا اور اسلام کی سربلندی کی نوید سنائی ہے
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا