دفعہ 370ہٹانے سے مسئلہ کشمیرختم نہیں پیچیدہ ہوگیا ہے

غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ تنازع کشمیر کا حل ان کی پارٹی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے لیے یہاں کے لوگوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اوراس دوران بڑی تعداد میں بچے یتیم اور خواتین بیوہ ہوئی ہیں۔مجھے یقین ہے کہ دفعہ370 اور جو کچھ اگست 2019 میں ہم سے چھین لیا گیا تھا، سود کے ساتھ واپس لیں گے۔ ہمیں پائیدار امن اور استحکام کی خاطر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مل کر جمہوری جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

محترمہ محبوبہ مفتی نے اسلام آباد سرینگر ہائی وے پر غیر ضروری ناکوں اور جامہ تلاشیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کی تلاشی لی جا رہی ہے، ان کے موبائل فون چھینے جا رہے ہیں اور انہیں من گھڑت الزامات کے تحت گرفتارکیا جا رہا ہے۔ ظلم و زیادتی کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا ان کا منشور ہے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ایک دن ضرور آئے گا جب انہیں اپنے کئے پر پچھتاوا ہوگا، جنہوں نے کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم و زیادتی کی کیونکہ کشمیری لوگ خاموش ہیں لیکن مردہ نہیں۔ ان کا پارلیمنٹ میں جانا جموں کشمیر کے بے کس اور لاچار عوام کی آواز کو بلند کرنا ہے، اور اس بات کو اجاگر کرنا کہ 5 اگست 2019 کا فیصلہ یہاں کی عوام کو قطعی طور منظور نہیں ہے۔آج نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان لڑائی نہیں ہے اور نہ ہی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے درمیان کوئی سیاسی جنگ ہے، آج صرف جموں کشمیر کی عوام کو ظلم و زیادتی سے نجات دلانے کی لڑائی ہے۔ ان طاقتوں کو روکنے کے لئے یکجا ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے دفعہ 370 کی منسوخی کے پارلیمنٹ اور صدر مملکت کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے بعد جموں و کشمیر کے سیاسی گلیاروں میں ایک بار پھر ہلچل دیکھی گئی۔

سماجی رابطہ گاہوں، ویڈیو، آڈیو پیغامات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا۔ بی جے پی کو چھوڑ کر تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ”بادل نخواستہ قبول“ کر لیا ۔ جہاں جموں و کشمیر کے دو سابق وزراء اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھروں میں نظر بند کیے جانے کو جموں کشمیر لیفٹیننٹ گورنر اور ریاستی پولیس نے غلط قرار دیا ہے وہیں دونوں لیڈران نے مبینہ طور انہیں نظر رکھے جانے کی مذمت کی ہے۔ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہا ”میرے ہم وطنو، سپریم کورٹ کا فیصلہ منزل نہیں بلکہ محض ایک پڑاؤ ہے۔ اسے منزل سمجھنے کی غلطی مت کرو۔ ہمارے مخالفین چاہتے ہیں کہ ہم دل برداشتہ ہو کر امید ہی چھوڑ دیں، تاہم ایسا ہمیں ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ دفعہ 370عارضی تھا، اسی لیے اس کو منسوخ کر دیا گیا۔ یہ کشمیریوں کی ہار نہیں بلکہ آئیڈیا آف انڈیا کی ہار ہے“۔

انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے بھارتی وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں بھارت نواز کشمیری رہنما بھی مودی پر پھٹ پڑے اور مودی کے غیر قانونی اقدامات کی کھل کر مخالفت کی۔ مقبوضہ کشمیر کے 14 سیاسی رہنماؤں کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ بیٹھک بے نتیجہ ثابت ہوئی، کشمیری قیادت نے مودی سے آرٹیکل 370 کی بحالی کا مطالبہ کیا، محبوبہ مفتی نے مسئلہ کے حل کے لئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا۔مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کا ایک اور ڈرامہ فلاپ ہوگیا، کشمیری قیادت کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم کی آل پارٹیز کانفرنس بے نتیجہ ختم ہوگئی۔ ساڑھے 3 گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں شرکا نے آرٹیکل 370 کے خاتمہ پر بھارتی وزیر اعظم پر خوب تنقید کی جس پر مودی نے کہا کہ مناسب وقت پر مقبوضہ وادی کی ریاستی حیثیت بحال کی جائے گی۔ میٹنگ میں آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے پانچ سال کے بعد مودی سرکار نے سرکار کے سیاسی لیڈروں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔

اے پی سی کے بعد مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ 5 اگست 2019ء سے مقبوضہ کشمیر کی عوام تکلیف میں ہے، بی جے پی نے 70 سال کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے کی جدو جہد کی۔ ہم بھی کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرا کر دم لیں گے۔ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم سے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا تاکہ مقبوضہ وادی میں بسنے والے کشمیریوں کے معاشی حالات بہتر ہوں۔ جموں کے لوگ پانچ اگست کے بعد سے غصے اور صدمے میں ہیں۔ عمر عبد اللہ نے کہاکہ ہم پانچ اگست کے اقدام کو نہیں مانتے، ہم قانون کو ہاتھ میں نہیں لیں گے، ہم کورٹ میں لڑیں گے۔ آرٹیکل 370 کو بھارتی سرکار بحال کرے۔ ہماری لڑائی اس اقدام کی واپسی تک جاری رہے گی۔ لداخ یونین ٹیریٹری کا درجہ عوام نہیں چاہتے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کی جائیکا درجہ بحال کیا جائے۔ کشمیری رہنما غلام نبی آزاد نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے اور گرفتار رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ جلد واپس ملے اور اسمبلی انتخابات فوراً کرائے جائیں۔ ڈومیسائل سے متعلق پرانے قوانین کو برقرار رکھا جائے۔ ریاست کی تقسیم نہیں ہونی چاہئے۔