کون دلاں دیاں جانے ہو۔۔۔

انبیاء صحابہ کے بعد بزرگان دین نے جینے کا راستہ دکھلایا بندے کو بندہ بنانے کیلئے شاعری کے ذریعے سبق سکھایا اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کا پرچار کیادین اور دنیا میں فلاح کو اوڑھنا بچھونا بنانے کیلئے لفظوں کو جوڑکرآخرت کو سنوارنے کی تبلیغ کی اسی لئے حضرت سلطان باہونے فرمایا تھا ”دل دریا سمندروں ڈونگے تے کون دلاں دیاں جانے ہو“۔ فرماتے ہیں کہ دل میں جو ہوتا ہے وہ دریا اور سمندر سے بھی گہرا ہوتا ہے اور اس میں ڈوبنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کرسکتا کیونکہ دل میں رب بستا ہے اوردل کا رازاللہ ہی جانتا ہے یا پھراس کا بندہ کہ اس کے دل میں کیا ہے جب بندہ کوئی بات کر رہا ہوتا ہے تو سوائے اس بندے کے اور اللہ کے اس راز کوکوئی نہیں جانتا کہ یہ جو کہہ رہا ہے اس میں سچ کتنا ہے اوردکھاوا کتنا ہے۔ ایران کی سرحد پاکستان کے ساتھ ملنے کے ساتھ ساتھ دل بھی ملتے ہیں مذہبی ثقافتی لحاظ سے بھی دونوں ممالک میں قدریں مشترک ہیں ایران نے ہر موقع پر دنیا بھر کے مسلمانوں پر مظالم کیخلاف آواز بلند کی ایران کے صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے ، وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے نورخان ایئر بیس پر ان کا استقبال کیااورکسی اہم شخصیت نے استقبال کیلئے جانا گوارا نہ کیا۔ کیا امریکی صدر آتا تو اس طرح کا ہی استقبال ہوتا یا کوئی وزیرہی استقبال کرتا ؟ ہر گز نہیں یہ بہت بڑاسوالیہ نشان ہے کہ چاردہائیوں بعد ایرانی سربراہ کا دورہ پاکستان پر آنااوربرائے نام استقبال کرناہمارے حکمرانوں کی امریکی غلامی کا ثبوت ہے دورہ کے دوران پاک ایران 8 معاہدوں، مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے،مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب اسلام آباد میں ہوئی جس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے شرکت کی،سینٹر آف ساؤتھ ایشین اسٹیڈیز کے مطابق ایران دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا تھا، اِسی طرح 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد وہاں کی حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا تھا، پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1949 میں ایران جب کہ 1950 میں شاہ آف ایران نے پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا، اِسی طرح پاکستان اور ایران نے 1950 میں ایک دوستانہ معاہدے’’فرینڈ شپ ٹریٹی‘‘پر دستخط کیے تھے ایرانی سربراہ کے دورے سے قبل سعودیہ کے وفد کا پاکستان آنا نیک شگون اور تینوں ملکوں میں بھائی چارے کی فضا مزید پروان چڑھے گی ، وزیر اعظم شہباز شریف سمیت دیگر اعلیٰ پاکستانی حکام نے اس دورے کو ملک کے لیے نتیجہ خیز اور سود مندقرار دیا ہے ایرانی صدر کا دورہ اہمیت کا حامل ہے ہمیں فوٹوسیشن یا جذباتی تقریروں کے بجائے کسی دبائوسے باہر نکل کرتعلقات کو وسعت دینا ہو گی کیونکہ ہم نے ہمیشہ امریکہ کیلئے کام کیا جس کی مثال یہ ہے کہ دسمبر 2019 میں اس وقت کے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی دعوت پر عمران خان کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے تھے، اجلاس میں
ترکی، انڈونیشیا، قطر اور پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں کے رہنماؤں کو دعوت دی گئی تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ او آئی سی سے ہٹ کر ہم خیال مسلم ممالک کا ایک نیا پلیٹ فارم وجود میں آ ئے گا جس میں سعودی عرب کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہو گی کیونکہ سعودیہ بھی ہمیشہ سے اپنی چودھراہٹ کی آڑ میں بگاڑپیداکرتا چلا آ رہا ہے پاکستان نے ابتدائی طور پر اس نئے پلیٹ فارم کی حمایت بھی کی تھی لیکن پھر اچانک عمران خان نے اجلاس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی،ایسا سعودی عرب کے دباؤ پر کیا گیا جو نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان جیسا اہم مسلم ملک اپنا سیاسی، سفارتی اور فوجی وزن کسی اور پلڑے میں ڈالے،کیونکہ ہمیں تو صرف اور صرف پیسہ چاہیے اور ایران یہ کر نہیں سکتا، سعودیہ ہمارا منہ بند رکھتا ہے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ ہم سعودیہ کی بھی کالونی ہیں، ایران و پاکستان دو جسم ایک جان کی مانند ہیں، لباس، رہن سہن، اردو فارسی کے لسانی و مشترکہ ادبی رشتے اور مشترکہ تاریخی میراث نے دونوں کو بھائی چارے کی اٹوٹ لڑی میں پرو رکھا ہے، دونوں میں کوئی سرحدی جھگڑا نہیں، دونوں برادر ممالک باہمی اقتصادی تعلقات کے امکانات سے بھر پور ہیں، امریکی حلیف ہونے کے سبب پاکستان کے بارے میں بھی ایرانی رویہ دوستانہ سے معاندانہ ہے، افغانستان میں روسی مداخلت کے بارے میں بھی ایرانی و پاکستانی مفادات ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ ایران نے پاکستانی ترجیحات و حساسیت کا لحاظ کیے بغیر بھارت سے پینگیں بڑھا لیں،کسی بھی علاقائی عدم توازن سے بچنے کے لیے ایران سے سٹرٹیجک قربت بڑھانا پاکستان کی علاقائی مجبوری ہے، شاہ ایران کے دور میں تہران نے بلوچستان کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا، پچھلے ساٹھ ستر برس میں اگر کوئی سرحد سب سے پرامن رہی تو وہ پاک ایران سرحد ہے،ایرانی صدر کے دورہ سے آنے والے دنوں میں باہمی اقتصادی رشتے پھلنے پھولنے کے امکانات پہلے سے کہیں روشن ہیں، دوسری طرف پاکستان خطے میں امریکی سعودی مفادات کا نگران بنا ہوا ہے اس کے بدلے فائدہ کم اور نقصان زیادہ اٹھایا گیا ہے پاکستان کا جھکائو ہمیشہ واشنگٹن کی طرف رہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ عرصہ سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ التواء کا شکار چلا آ رہا ہے سعودیہ کا بھی اس میں اہم کردار ہے صدر زرداری نے اپنے آخری دور میں2013 میں خانہ پری کیلئے طویل انتظارکے بعد گیس پائپ لائن منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا، منصوبے کے تحت پاکستان اور ایران کے درمیان اس منصوبے سے یومیہ پچھتر کروڑ مکعب فیٹ گیس کی درآمد کے لیے پاک ایران بارڈر سے پاکستان میں نواب شاہ تک سات سو اسّی کلومیٹر طویل پائپ لائن تعمیر کرنا تھی، منصوبے کے تحت 2014ء تک پاکستان کو ایران سے گیس کی فراہمی شروع ہونا تھی لیکن پاکستان کی طرف سے پائپ لائن ہی نہ بچھائی گئی یاد رہے کہ امریکا کی طرف سے اس منصوبے پر متعدد بار تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور کئی مرتبہ پاکستان کو عالمی پابندیوں کی دھمکیاں بھی دی گئیں،ایران،پاکستان گیس پائپ لائن کے ٹینڈر جاری ہوئے لیکن سب بے سود نظر آیاکیونکہ امریکہ اور سعودیہ اس منصوبے کے خلاف تھا اور ہے،ایران نے اپنے حصے کا کام وقت پر مکمل کیا، ہمارے آتے جاتے حکمرانوں کی جانب سے سستی دکھائی گئی اور کہا گیا کہ نجی کاروباری لوگ اس منصوبے میں دلچسپی نہیں لے رہے اور پاکستان کے پاس اتنے فنڈزنہیں ہیں، بعد میں امریکہ کی جانب سے ایران سے برآمدات اور درآمدات پر پابندیاں لگنے کی وجہ سے پاکستان نے مزید ہاتھ روک لیے تھے گیس پائپ لائن کا 1150 کلو میٹر حصہ ایران میں بچھایا جا چکا ہے جب کہ پاکستان میں 781 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھائے جانے کا کام مکمل نہیں ہو سکا،پاکستانی علاقے میں منصوبہ ابھی تک زیر تکمیل ہے، پاکستان میں صنعت، ٹرانسپورٹ اور گھریلو ضرورت کے لیے بجلی اور گیس دونوں استعمال ہوتے ہیں، جو کہ پاکستان میں ناکافی ہونے کی وجہ سے انتہائی مہنگے ہیں اور عوام کو مہنگے بل ادا کرنا پڑتے ہیں، ملکی مفاد میں ہمیں کسی تنازع میں پڑنے کے بجائے بہترین اقتصادی تعلقات قائم کرنا ہوں گے، دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ پائپ لائن بچھانے سے پاکستان 18 ارب ڈالر جرمانے کی ادائیگی سے بچ جائے گا، ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے 750 ملین کیوبک فٹ گیس انتہائی سستی ملے گی، ایران سے گیس خریدنے کے نتیجے میں پاکستان کو سالانہ 6 ارب ڈالر سے زائد بچت ہوگی جبکہ سعودیہ اور ایران میں بھی برف پگھل رہی ہے، ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد ایران سے 9سال بعد پہلا گروپ عمرہ ادائیگی کے لیے سعودی عرب روانہ ہواہے عالمی میڈیا کے مطابق عمرہ کی ادائیگی پر جانے والا ایرانی گروپ 85معتمرین پر مشتمل ہے ایرانی میڈیا نے دسمبر 2023میں رپورٹ کیا تھا کہ سعودی عرب نے عمرہ کرنے کے خواہش مند ایرانیوں پر عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں لیکن تہران کی جانب سے تکنیکی مسائل کی وجہ سے پروازیں اب تک تاخیر کا شکار ہیں،واضح رہے کہ سعودیہ ایران سفارتی تعلقات گزشتہ سال مارچ میں چین کی ثالثی میں بحال ہوئے تھے،ایران کے صدر کا دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے،ایران کے صدر کا دورہ پاکستان دونوں ملکوں کے تعلقات میں سنگ میل ثابت ہوگا، ہم اپنے پڑوسی اور برادر ملک ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، پاکستان اور ایران کے درمیان صدیوں پرانی مذہبی اور ثقافتی وابستگیوں پر مبنی گہرے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات ہیں، پاکستان ہمیشہ اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان توانائی، تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کے وسیع امکانات موجود ہیں ہمیں پیچھے کی طرف دیکھنے کے بجائے آگے کی جانب بڑھنا ہوگا تاکہ ملک ترقی کرے اور عوام خوشحال ہو سوائے خالی خولی تقریروں سے ہٹ کرکام کرنا ہو گا ورنہ حضرت باہوکا کہنا سچ ثابت ہو گا کہ کون دلاں دیاں جانے ہوکہ دل میں کچھ اور ہواور زبان پہ کچھ اور ہو۔