(ن)لیگ کا گورنر سندھ، سوالیہ نشان!

پنجابی سادہ لوح ہیں یا فراخ دل ہیں، ایثارکیش ہے یا جلد فریب خوردگی کا شکار ہونے والے ہیں، اس حقیقت کا صحیح ادراک واقعاتی شواہد سے کیا جاسکتا ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں پنجابیوں نے جس والہانہ انداز سے ذوالفقار علی بھٹو کی پذیرائی کی اور جس پاگل پن کی حدتک جنونی حمایت کی نئی تاریخ رقم کی، جیلوں کی صعو بتیں برداشت کیں، کوڑے کھائے، حتیٰ کہ زندہ جل مرے صلہ کیا پایا، بدنامی، رسوائی، ڈاکو، ظالم اور ناانصاف، لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی توجہ اور عنایات کا مرکز سندھ ہی رہا ہے۔ پنجاب پر ”مہربانیوں“ اورسندھ پر نوازشات کی بہت سی مثالوں میں سے ایک جس نے لاشعور سے شعور کو گرفت میں کیا وہ کوٹہ سسٹم ہے اس خبر نے کہ ”ایم کیوایم کا شہری کوٹے میں بے ضابطگیوں کی مانیٹرنگ کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ“ بعض ایسے واقعات کی یاد تازہ کردی جن سے کچھ قباحتوں نے جنم لیا ہے۔ سندھ میں سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کے سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو نے شہری دیہی سندھ کا کوٹہ اس بنیاد پر مقرر کیا تھا کہ کراچی، حیدرآباد، سکھر جیسے شہروں میں حصول تعلیم اور روزگارکی سہولتیں موجود ہیں اندرون سندھ ان سے محروم ہے، لہٰذا اس سقم کو کوٹہ سسٹم سے دور کرنے کی حکمت عملی اپنائی، سوال پیدا ہوتا ہے کیا صوبہ پنجاب، تب صوبہ سرحد (کے پی کے) اور صوبہ بلوچستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں تعلیم و روزگار کی یکساں سہولتیں میسر تھیں اور صرف صوبہ سندھ ہی محرومی کا شکار تھا جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں تھا تو پھر چاروںصوبوں کیلئے یہ پالیسی کیوں نہیں بنائی گئی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا اس پالیسی کے نتیجے میں سندھ دیگر تین صوبوں کی نظر میں مجرم اور نفرت آمیز تنقید ومخالفت کا ہدف بن گیا۔ دلچسپ حقیقت ہے ایسا نہیں ہوا بلکہ اس ردعمل کا ہدف پنجاب بنا جو صوبہ سرحد (کے پی کے) اور صوبہ بلوچستان کی طرح کوٹہ سسٹم کی ”فیوض وبرکات“ سے محروم رہا، اس کی ایک جھلک 1982-83ء میں ایک سال سے کچھ زائد روزنامہ نوائے وقت کراچی میں کام کرنے کا موقع ملا جب ضیا شاہد مرحوم ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔

ایک روز ایک ساتھی نے کہا کچھ دیر بعد میری بھانجی آئے گی وہ آپ سے کچھ بات کرناچاہتی ہے بڑا عجیب سا لگا بہر حال وہ بھانجی آئی اور اس نے کہا کہ میرا سوفیصد میرٹ تو بنتا ہے اگر آپ پنجاب کا ڈومیسائل بنوادیں تو مجھے جاب مل سکتی ہے۔ لاہور میں اپنے بہت اچھے دوست اور نوائے وقت کے سینیر رپورٹر اسماعیل طارق سے رابطہ کیا انہوں نے کہا یار بخاری صاحب یہ تو جعلی کام ہے میں نے زور دیا ایک بچی کے روزگار کا معاملہ ہے ذاتی مفاد تو ہے نہیں۔ گناہ ہے تو ہو سکتا ہے نیک نیتی کی وجہ سے معاف ہو جائے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے اسماعیل طارق کو آمادہ کیا کچھ دنوں بعد اسماعیل طارق نے فون پر بتایا کہ یہ کام دوسے تین روز میں ہو جائے گا۔ لیکن اگلے ہی روز وہ کولیگ کی بھانجی دوبارہ آفس آئی اور بہت غصے سے کہا ”وہ ڈومیسائل رہنے دیں ایک پنجابن کو وہ جاب مل گئی ہے“۔ اس اشتعال انگیز ردعمل سے عجیب کیفیت کا شکار ہوا کہ اس لڑکی کی خاطر دو پنجابی جعلسازی کے گناہ گار بننے پر آمادہ ہو گئے پنجابن کو کوٹہ سسٹم کے تحت حقیقی ڈومیسائل کی بنیاد پر جائز طریقے سے جاب ملی ہے لیکن کوٹہ سسٹم کی بجائے نفرت اور تنقید کی کیفیت پیدا کرنے کا ذمہ دار سو فیصد ذوالفقار علی بھٹو ہے اگر سندھ کی طرح دیگر تین صوبوں میں بھی کوٹہ سسٹم رائج ہوتا تو شاید یہ کیفیت اذہان میں نہ کلبلاتی۔

دوسرا سوال یہ کہ سندھی ڈومیسائل کی بنیاد پر کوٹہ سسٹم کے تحت اندرون سندھ کی لڑکی کو جاب مل گئی تو وہ ایسے ردعمل کا شکار کیوں نہیں ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو کے ادوار اور سندھ میں طویل ترین حکمرانی کے دوران سندھ کے دیہی علاقوں میں تعلیم و روزگار کے ایسے مواقع کیوں پیدا نہیں کئے گئے کہ وہاں کے نوجوانوں کو شہری علاقوں جیسی سہولتیں میسر آ سکتیں ہیں۔ دوران اگر بعض تعلیمی ادارے بنے تو ان سے فارغ التحصیل نوجوانوں کیلئے اندرون سندھ مواقع کیوں نہیں ہیں کوٹہ سسٹم کے تحت کراچی اور حیدرآباد پر اضافی بوجھ کیوں ہے۔ ان دو شہروں کے نوجوان اس ردعمل کا شکار کیوں ہیں جو کولیگ کی بھانجی سے بڑے غصے بھرے الفاظ میں ظاہر کیا، ”ہم یہیں پیدا ہوئے ، یہیں تعلیم حاصل کی، جاب بھی یہیں ہے مگر لے گئی وہ پنجابن“۔

اندرون سندھ کئی لوگوں سے گفتگو کے نتیجے میں میں جو سمجھ سکا ہوں وہ بلکہ بھٹو نے سندھیوں پر مہربانی کی آڑ میںدراصل’’سندھ کارڈ‘‘ کی بنیاد رکھی تھی جو آج بھی پیپلزپارٹی کا بہت موثر سیاسی ہتھیار ہے۔

چند روز قبل محلے کی بیکری سے ناشتے کا سامان لے رہا تھا نزدیک اخبار پر نظر جمائے ایک صاحب نے کہا کہ ”یہ مریم پنجاب میں بہت کام کررہی ہے“ دکاندار گل چانڈیو نے جلنے کے سے انداز سے کہا ’’پیسہ تو سارا سندھ سے جارہا ہے نا ۔”زم الفاظ میں تھوڑی سی بات کی کوئی دلیل نہیں مگر“ اوجا رہا ہے ناجی، سندھ کو خالی کر دیا“۔ پھرگل چانڈیو نے انکشاف کیا بھٹو نے لاڑکانہ کے لوگوں کو بہت کہا تھا ”یہاں کیا کررہے ہو، کراچی جاؤ“۔ جن لوگوں نے بھٹو کی بات مانی آج وہ کروڑ پتی ہیں ہمارے بڑے وہیں پڑے رہے اب آئے تو چھوٹی سی بیکری کی دکان ہے ”عرض کیا برادر ، یہ بیکری کی دکان تو لاڑکانہ میں بھی چل سکتی تھی اس کے لیے کراچی آنا کیا ضروری تھا“ جواب دیا، وہ والد صاحب، بینظیر کے پہلے دور میں آئے۔ اٹلس ہونڈا کمپنی میں ملازمت مل گئی پھر ہم بھی آگئے۔

سوال کیا جاسکتا ہے پنجاب کے خلاف پروپیگنڈہ کیوں، سرسری جائزہ لیا جائے تو اس پروپیگنڈہ کا فائدہ پیپلزپارٹی کی جھولی میں گر رہا ہے ایک تو سارا پیسہ پنجاب لے گیا سندھ حکومت بچاری کیا کرے کے تاثر سے پی پی حکومت کی کارکردگی نظروں سے اوجھل، دوسرا سندھ کارڈ مضبوط ہونے کا عمل، ساتھ ہی کوٹہ سسٹم کے تحت شہری علاقوں پر سیاسی وانتظامی گرفت مضبوط کرنے کی حکمت عملی۔؎

ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ پنجاب سے عناد رکھنے والوں کو جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی سے بھی بالواسطہ تقویت مل رہی ہے یہ دونوں جماعتیں اپنی اپنی سیاسی اغراض و مقاصد کیلئے پنجاب میں حکمرانی کرنے والے شریف خاندان پر ”چور، ڈاکو“۔کے الزامات کی گردان کررہی ہیں جس سے پنجاب کھا گیا، کے پروپیگنڈہ میں جان پڑ رہی ہے۔

اوریہ اس سے بھی بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ خود اپنا اور پنجاب کا دفاع کرنے کی ذمہ دار (ن) لیگ کی قیادت سندھ میں موثر سیاسی موجودگی کو نظر انداز کرنے کی مسلسل روش جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہاں تک انتخابات میں (ن) لیگ کے امیدواروں کی حوصلہ افزائی کیلئے کسی نمایاں لیڈر نے سندھ کا ایک دورہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ (ن) لیگ کی قومی جماعت ہونے کی پوزیشن دھندلا رہی ہے جس طرح پیپلزپارٹی سندھ کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے اسی طرح (ن) لیگ بھی پنجاب کی پارٹی کا تاثر خود اپنے ماتھے کا جھومر بنارہی ہے۔ حالانکہ دو، تین، ایسی پارٹیوں کا وجود ملکی یکجہتی کیلئے ناگزیر ضرورت ہے جو چاروں صوبوں میں مضبوط جڑیں رکھتی ہوں، (ن) لیگ اس قومی تقاضے کی بجا آوری کی اہلیت رکھنے کے باوجود خود کو پنجاب تک محدود رکھنے کی روش پر گامزن ہے اس کی مصلحت اور افادیت کاصحیح علم (ن) لیگ کی قیادت کو ہی ہوسکتا ہے۔ مزید تعجب کہ اس پارٹی میں عرفان صدیقی جیسے دانش ور اور پرویز رشید جیسے سیاسی گرو بھی موجود ہیں یایہ پھر سندھی اتحادیوں کیلئے پنجابیوں کے ”روایتی ایثار“ کا مظاہرہ ہے۔

سندھ میں ایک اور اہم معاملے میں (ن) لیگ کی قیادت کا کردار بھی بہت سوں کا مرکز نگاہ ہے ۔ وہ ہے گورنر کی تقرری ۔ اس طے شدہ فارمولہ کے باوجود کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور سندھ میں (ن) لیگ کا گورنر ہو گا۔ نہیں لگتا (ن) لیگ اپنا گورنر لا سکے گی پیپلزپارٹی کی پوری کوشش ہے کہ (ن)لیگ کا گورنر آنے کی بجائے کامران ٹیسوری ہی گورنر رہیں۔ نگران وزیراعلیٰ کی طرح اس معاملے میں بھی پی پی کو ایم کیو ایم کا تعاون بھرپور انداز سے دستیاب ہے اس پس منظر میں کامران ٹیسوری کیلئے بھرپورمہم چلائی جارہی ہے سندھ میں (ن ) لیگ کا گورنر لمحہ موجود میں یقینی نظر نہیں آرہا جبکہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا گورنر ہزار فیصد یقینی ہے ۔ البتہ پیپلزپارٹی میں گورنر جنوبی پنجاب سے ہو یا وسطی پنجاب سے یہ بحث بھی جاری ہے ۔ ایک رائے ہے جنوبی پنجاب سے گورنر وہاں پارٹی کی جڑیں مضبوط ہونے کا ذریعہ بنے گا جبکہ دوسری رائے ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت پر نفسیاتی دباؤ رکھنے کیلئے وسطی پنجاب سے گورنر زیادہ موزوں ہے۔ مزید دلچسپ یہ کہ پورے سندھ سے (ن) لیگ کی جانب سے ایک نحیف سی آواز بھی سنائی نہیں دی کہ گورنر (ن) لیگ کا لایا جائے حالانکہ بشیر میمن سمیت کئی دیگر اس منصب کیلئے موزوں امیدوار موجود ہیں۔