اہل تجدد اور ہمارا رویہ!

کسی عہد کے متجددین اور ان کے متاثرین کے حوالے سے ہمارا نکتہ نظر کیا ہونا چاہئے؟ یہ دور جدید کا اہم سوال ہے۔ کیا ان کے فہم دین کو من و عن قبول کر لیا جائے یا ان پر ضلالت و گمراہی کا لیبل لگا کر انہیں یکسر مسترد کر دیا جائے؟

میرے خیال میں دونوں رویے نامناسب ہیں۔ ان کے فہم دین کو من و عن قبول کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ ان کا فہم دین عصری تاثر اور غالب تہذیب سے مرعوبیت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اس کی روشن مثال موجودہ عہد کے متجدد اعظم جناب جاوید احمد غامدی ہیں۔ ان کے فہم دین کی بنیاد جن ستونوں پر قائم ہے اس میں مرکزی ستون عصری تاثر اور اور تہذیب غالب سے مرعوبیت ہے۔ انہوں نے دین کی جو تشریح کی اور ان کی کوششوں سے جو افراد تیار ہو کر نمایاں ہوئے ان کے افکار و اعمال اس پر شاہد عدل ہیں۔ ان کے متوقع جانشین کی طرف سے تہذیب غالب کو انسانی تاریخ کا ’’مہذب ترین فاتح‘‘ ڈکلیئر کرنا اسی فکر کے نتائج میں سے ہے۔

متجددین کا مجموعی فہم اور اس کے نتائج تو وہی ہوتے ہیں جو اوپر ذکر کیے گئے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذوق تجدد کی بنیاد پر کچھ ایسی مثبت اور بروقت تشریحات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جنہیں اہل روایت اپنی محتاط طبیعت کی بنا پر نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔ اہل روایت کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ اس روایت کے امین اور نگہبان ہوتے ہیں جو صدیوں سے چلی آ رہی ہوتی ہے۔ اہل روایت کی ذرا سی لغزش اور فکری کج روی کسی بہت بڑے فکری حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک نگران و نگہبان اور ایک خود ساختہ شارح میں یہی فرق ہوتا ہے۔ بطور نگران و نگہبان میں اپنی اقلیم میں ہمیشہ محتاط فیصلے کروں گا لیکن کوئی آزاد خیال مفکر میری اقلیم کے فیصلوں میں احتیاط کے پہلوؤں کو ہمیشہ نظرانداز کرے گا۔

جیسے اوپر ذکر کیا گیا کہ متجددین بعض اوقات اپنے ذوق تجدد اور غیر محتاط رویہ کی بنیاد پر کبھی کبھار بروقت اور کچھ مثبت تشریحات کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان مثبت چیزوں کو بھی نظر انداز کر دیا جائے؟ اعتدال کا تقاضا اور مذہبی ہدایت تو یہی ہے کہ ان مثبت چیزوں کو لے لیا جائے۔ مذہبی ہدایت میں حکمت کو مومن کی گمشدہ میراث کہا گیا ہے۔ یہ میراث اگر اہل کفر سے حاصل کی جا سکتی ہے تو اہل تجدد سے بطریق اولیٰ حاصل کرنی چاہیے۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ سماج من حیث المجموع اس ذہنی سطح پر نہیں ہوتا کہ متجددانہ افکار کے انبار میں سے معتدل تشریحات اور مثبت تعبیرات کا انتخاب کر سکے۔ سطحیت کے اس عہد میں، عام عوام رہے ایک طرف مذہبی تعلیمی اداروں میں حصول علم میں مشغول طلباء میں بھی اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ معتدل افکار کا انتخاب کر سکیں۔ اس سطحیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سماج اور مذہبی طالبعلم تجدد پسند افکار سے متاثر ہو کر خود روایت اور اہل روایت سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض تعلیمی اداروں میں متجددانہ افکار پر مشتمل لٹریچر پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے من حیث المجموع سماج پر کوئی ایسی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

اس پابندی کو اپنے حق میں کیش کرنے کے لیے اہل تجدد اور ان کے متاثرین یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اہل روایت کے ہاں ’’فکری آزادی‘‘ میسر نہیں۔ اہل روایت فکر کا گلا گھونٹتے ہیں۔ روایتی مذہبی اداروں میں مذہبی لٹریچر پر پابندی لگائی جاتی ہے وغیرہ۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈہ کامیاب بھی ہوتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ سطحیت کے اس عہد میں اہل روایت کا یہ رویہ کچھ زیادہ نامناسب بھی نہیں۔ مذہبی تعلیمی اداروں میں آنے والے طالب علم مختلف پس منظر اور متنوع ذہنی حالتوں کے ہوتے ہیں۔ ہر طالب علم میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ صحیح و سقم کا فرق واضح کر سکے۔ ایسے میں اگر ان کی متوازن فکری نشو و نما کے لیے کوئی انتظامی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس پر اتنی وحشت نہیں ہونی چاہیے۔

متجددین کے حوالے سے ہمارا دوسرا رویہ یہ ہے کہ ان پر ضلالت و گمراہی کا لیبل چسپاں کر انہیں بالکل آخری سرحدوں پر دھکیل دیا جاتا ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں تو سرحد پار دھکا دے کر تکفیر تک کر دی جاتی ہے۔ یہ رویہ بھی انتہا پسندانہ ہے اور کسی طور اس کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ کسی مسلمان کی تکفیر اور تضلیل انتہائی محتاط عمل ہے۔ یہ سراسر ریاستی اور اہل علم کا اختیار ہے۔ اہل علم بھی وہ جنہیں ریاستی سطح پر یہ اختیار دیا جائے۔ ہر ایرے غیرے کی زبان سے تکفیر اور تضلیل کا دعویٰ سماجی المیہ اور ہمارے اجتماعی شعور پر سوالیہ نشان ہے۔

تکفیر اور تضلیل کی اس وضاحت کے بعد محض کسی کے تجدد پسند افکار کی بنا پر اس حد تک چلے جانا بذات خود ایک تجدد پسند عمل ہے۔ اہل تجدد اسی امت کے فرد ہیں۔ جب تک ان کا تجدد علی الاعلان دین کے بنیادی مسلمات کے خلاف نہ ہو انہیں امت کا فرد تسلیم کرتے ہوئے ان کے معتدل افکار کو لینا چاہیے اور غیر معتدل افکار کو رد کر دینا چاہیے۔ معتدل و منحرف افکار کا تعین سماج کی نہیں اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ سماج اور اہل علم دونوں کو اپنی اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ سماج کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دین کی اصل تصویر اور متعدل تعبیر و تشریح وہی ہے جس کی نمائندگی اہل روایت کرتے ہیں۔ اہل علم کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہل تجدد اسی امت کے فرد ہیں، ان کی بعض مثبت چیزوں کو قبول کرنا اور ان کی فکری کج روی کی نشاندہی ان کی ذمہ داری ہے۔

اہل تجدد اس امت کے اہل علم کیلئے آزمائش ہیں۔ ان کے غیر متعدل رویوں، اسلام کی معذرت خواہانہ تشریحات، عصری تاثر کی بنیاد پر فہم دین اور غلط تعبیرات کی نشاندہی اس امت کے اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ گویا اہل تجدد وہ مسلمان ہیں جو روایت کے حلق کا کانٹا ہیں۔ انہیں مکمل پر طور پر نگلا جا سکتا ہے نہ اگلا جا سکتا ہے۔ انہیں نگلنا ہے تو بھی احتیاط کے ساتھ ورنہ حلق زخمی ہو جائے گا اور اگلنا ہے تو بھی احتیاط کے ساتھ۔

وہ اہل علم جو اہل تجدد کی نامناسب تعبیرات اور غیر معتدل رویوں کی نشاندہی کے بجائے خود ان سے متاثر ہو جاتے ہیں وہ قابل رحم اور ان کی فکری پختگی سوالیہ نشان ہے۔