معیشت کی بحالی… مثبت اشارے!

مشرقِ وسطیٰ اور اور وسطی ایشیا کی معاشی صورتِ حال پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی ایم ایف حکام نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان جب کہے گا اسے فنڈ مہیا کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ (ایس بی اے) جس کا آخری جائزہ لیا گیا ہے اور جسے بورڈ کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا جائیگا اس سے پاکستان کو شدید اقتصادی عدم توازن دور کرنے اور معاشی استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ اس کے لیے میکرو اکنامک استحکام کو بر قرار رکھنا اور بجٹ خسارے کی سطح کم کرنا ضروری ہے۔ آئی ایم ایف حکام کا مزید کہنا تھا کہ ریونیو کی صورتحال کو بہتر بنا کر مالیاتی صورتِ حال کو مضبوط بنانے پر کام جاری رکھا جائے۔ محصولات میں اضافہ حکومت کو قرضوں کی صورتِ حال سے نمٹنے کی اجازت دے گا۔ توانائی کے شعبے میں اصطلاحات کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے سماجی مدد فراہم کرنے کے منصوبے میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔آئی ایم ایف پاکستان کو مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کے دو طرفہ شراکت دار بھی پاکستان کو اضافی مدد فراہم کرنے کے پروگرام کے منتظر ہیں۔
دریں اثنا وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگ زیب نے واشنگٹن میں بلوم برگ کے حکام کے ساتھ رائو نڈ ٹیبل اجلاس میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جنہیںبلوم برگ نے رپورٹ کی صورت میں شائع کیا ہے کہا ہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر مضبوط اور شرح تبادلہ مستحکم ہے۔ ترسیلاتِ زر اور بر آمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آنے والے برسوں میں شرح نمو چار فی صد سے تجاوز کر جائے گی۔ روپے کی قدر میں سالانہ روایتی چھ سے آٹھ فی صد سے زیادہ کمی کا کوئی جواز نہیں۔ پاکستان کو توقع ہے کہ آئی ایم ایف مشن مئی میں پاکستان کا دورہ کرے گااور اگلے قرض پروگرام کے لیے جون کے آخر میں یا جولائی کے اوائل تک سٹاف لیول معاہدہ طے پا جائے گا۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے دوران بیرونی مالیاتی ضروریات کے لیے تقریباً چوبیس ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ پاکستان ان ادئیگیوں کو کرنے کے لیے نسبتاً بہتر صورتِ حال میں ہے۔
ملکی معیشت جو پچھلے سال کئی برس سے بالخصوص جناب عمران خان کے دورِ حکومت اور بعد میں میاں شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم حکومت اور بعد میں نگران حکومت کے ادوار میں انتہائی زبوں حالی کا شکار چلی آ رہی ہے، اس کے حوالے سے یہ اشارے یقینا اس کے بہتری کی راہ پر گامزن ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جناب
عمران خان اپریل 2022ء میں قومی اسمبلی میں اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکومت سے فارغ ہوئے تو ملکی معیشت بلا شبہ گراوٹ کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی اورپاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات سر پر منڈلا رہے تھے۔ میاں شہباز شریف کی حکومت نے ملکی معیشت کو سہارا دینے اور پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے سخت فیصلے کیے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام جو تعطل کا شکار تھا اس کو دوبارہ شروع کرانے کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو بھی قبول کیا۔ اس کا نتیجہ میاں شہباز شریف کی حکومت کو عوام کی ناراضی کی صورت میں قبول کرنا پڑا کہ عوام نے فروری 2024ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو اپنے اکثریتی ووٹوں کا اہل نہ سمجھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں شہباز شریف کی حکومت ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور ملکی معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر چڑھانے میں کامیاب رہی۔ بعد میں جناب انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں نگران حکومت قائم ہوئی تو اس نے بھی معاشی ڈسپلن کو برقرار ہی نہ رکھا بلکہ معیشت کے استحکام کے لیے سخت فیصلے بھی کیے۔ اس ضمن میں ایس آئی ایف سی(خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل) جس کی تشکیل میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا بڑا ہاتھ ہے اور وزیرِاعظم کی سربراہی میں اس کی اپیکس کمیٹی کے وہ رکن بھی ہیں کا کردار بھی بڑا نمایاں اور مثبت چلا رہا ہے۔ بلاشبہ زراعت، مویشی بانی، معدنیات ، کان کنی، آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبوں میں اصلاحات لا کر ان کو ترقی دینے اور ملکی پیداوار میں اضافہ کرنے کے حوالے سے ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے کی جانے والی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہیں۔ سمگلنگ کی روک تھام، ٹیکس چوروں اور بجلی چوروں کے خلاف کارروائی اور زرعی پیداوار بالخصوص کپاس کی پیداوار میں اضافہ اور گندم کی موجودہ فصل کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے کے حوالے سے ایس آئی ایف سی کے مثبت کردار کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ حا ل ہی میں اس کا ایک بڑا مظاہرسعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کی قیادت میں ایک اعلی اختیاراتی وفدکے دورئہ پاکستان کے موقع پر بھی سامنے آیا ہے۔ سعودی وزیر نے ایس آئی ایف سی (خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل) کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے۔ سعودی وفد کو باقاعدہ پریزینٹیشن دی گئی جس میں سعودی تحفظات اور خدشات کو دور کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ دفاع، زراعت، مویشی بانی، معدنیات اور کان کنی، آئی ٹی اور ٹیلی کام اور توانائی کے پانچ شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے مجوزہ حکمتِ عملی اور لائحہ عمل پر بریف کیا گیا۔ اس موقع پر سعودیہ کو32ارب ڈالر منصوبوں جن میں پی آئی اے اور ائیر پورٹس کی نجکاری، گوادر ریلوے لنک اور بھاشا ڈیم سمیت 25 شعبے شامل ہیں میں شمولیت اور سرمایہ کاری کی پیش کش کی گئی۔ ایس آئی ایف سی (خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل)کی طرف سے سعودی حکام کو ملک کے ارتقا پذیر معاشی منظر نامے کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا جن میں آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی ایگریمنٹ پروگرام، بیرونِ ملک لے جانے والے منافع میں اضافے، 2024-25 ء کے آئندہ مالی سال میں مہنگائی میں متوقع کمی، منڈی کی بنیاد پر زرِ مبادلہ کا نظام، ایس آئی ایف سی کے اقدامات کے تحت سرمایہ کاری کا بہتر ماحول، نجی سیکٹر کی سرکردگی میں ترقی ، نجکاری کے ذریعے خصوصی توجہ دینا اور پرائیویٹ پبلک پارٹنر شِپ میں ریاستی عمل دخل میں کمی جیسے امور شامل تھے۔ اس کے علاوہ سعودی وفد کو بتایا گیا کہ ایس آئی ایف سی سرمایہ کاروں کے لیے ـ "ون سٹیپ شاپ” ہے جو مشترکہ فوجی اور سویلین اقدامات کرتا ہے تاکہ سرمایہ کاری کو تیز کر کے میکرو اکنامک (کلاں اقتصادیات) میں استحکام حاصل کیا جا سکے۔ سعودی وفد کو مزید بتایا گیا کہ دفاع، زراعت، مویشی بانی، معدنیات اور کان کنی اور آئی ٹی اور ٹیلی کام پانچ بڑے سیکٹرز ہیں جن میں طویل مدتی سرمایہ کاری کے لیے حکمتِ عملی بنائی گئی ہے جس میں نوکر شاہی کا عمل دخل کم کر کے تیز تر عمل در آمد کے لیے پاکستانی فوج کی مہارتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افقی اور عمودی ارتباط (ربط و ضبط و ترقی) کو حاصل کیا جائے گا۔ سعودی وفد کے سربراہ وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے اس موقع پر یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کے لیے جو ہو سکا ہم کریں گے۔
ملکی معیشت کی بحالی اور اسے بہتر بنانے کے لیے یہ اقدامات اور پیش رفت یقینا حوصلہ افزا ہے۔ اس حوالے سے میاں شہباز شریف کی حکومت بھی پُر عزم دکھائی دیتی ہے ۔ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف مختلف مواقع پر اس ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ کابینہ کے حالیہ اجلاس میں وزیرِ اعظم کے خطاب کا حوالہ دیا جا سکتا ہے ۔ میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی۔ منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنانا ضروری ہو گا۔ پرانے طریقہ کار کی گنجائش نہیں اور نہ ہی میں اس کی اجازت دوں گا۔ میں خود تمام منصوبوں کی نگرانی کروں گا۔ ہمیں پاکستان کی ترقی کے لیے تیزرفتاری سے کام کرنا ہو گا اور ہم پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور معاشی استحکام کے اہداف جلد حاصل کر یں گے۔
ملک کی معاشی صورتِ حال کے حوالے سے یہ نکات اہم ہیں اور سمجھا جا سکتا ہے کہ آئندہ مہینوں میں ان کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئیں گے اور ملک کی معاشی ابتری میں یقینا کمی آئے گی۔