دَورِ جدید نے انسانیت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں جس کی وجہ سے اقداروروایات کا وہ نظام ہَوا ہوگیا جو لازمۂ انسانیت کا تقاضا تھا۔ اب ہرطرف نفسانفسی کا عالم ہے اور یہ ساری تگ ودَو دھن دولت اکٹھی کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔ حقیقت یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِاثر کرپشن بھی فَن کادرجہ حاصل کر چکی۔ اب سرمایہ دار ملک وقوم کی بہتری کے بجائے سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے کوشاں نظرآتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر، امیرتَر اورغریب، غریب تَر ہوتا جارہا ہے۔ اِس نظام کی سب سے بڑی خامی دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جو نوجوان مسلمانوں کی نَس نَس میں نفرتوں کازہر بھر رہی ہے۔ آج صورتِ حال یہ کہ اعلیٰ تعلیم کا حصول محض اچھی ملازمت کے دَروا کرنے کے لیے رہ گیا ہے۔ اگر کسی کا مطمع نظر ملازمت کے بجائے کاروبار ہے یا کارزارِ سیاست میں قدم رکھنا ہے تووہ اعلیٰ تعلیم کے بجائے واجبی سے علم پر بھی اکتفا کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارضِ وطن کے ارب پتی کاروباری ہوںیا آئین ساز اسمبلی میں بیٹھے سیاستدان، محض واجبی سی تعلیم کے حامل ہوتے ہیں۔ کیا یہ حیران کُن نہیںکہ جنہوں نے آئین سازی کرنی ہے اُن کی غالب اکثریت آئین سے نابلد اور اُن کاکام کسی بھی آئینی ترمیم پرمحض ہاتھ کھڑے کرنا رہ گیا ہے۔ دوسری طرف پڑھالکھا بے روزگار نوجوان نفرتوں کازہر مَن میں سمائے چورڈاکو بَن رہا ہے۔ پاکستان میں دِن دیہاڑے سرِعام ڈاکے اور پرس چھیننے کی وارداتوں کی بہتات ہے۔ ایسے میں مزاحمت کرنے والے کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھوبیٹھتے ہیں۔ ہماری حکومتیں ایسے لوگوں کا قلع قمع کرنے کے دعوے تو بہت کرتی ہیں لیکن یہ وارداتیں دن بہ دن بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ بدقسمتی یہ کہ ہماری حکومتوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ایسی وارداتیں کیوں ہورہی ہیں؟۔ حقیقت یہ کہ یہ سب بے روزگاری کا شاخسانہ ہے یاپھر دولت کی مساویانہ تقسیم کی عدم فراہمی۔ اِس کاحل تویہی کہ بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا جائے اور اِن ٹیکس چوروں کو نشانِ عبرت بناکر اِن سے وہی ٹیکس اکٹھا کیاجائے جو حکومت کی ڈیمانڈ ہے۔ یہاں مگر صورتِ حال یہ کہ خود وزیرِاعظم صاحب نے اقرار کیا کہFBR اگر قومی خزانے کے لیے 100روپے اکٹھے کرتی ہے تو 300روپے اُس کی اپنی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ سرمایہ داروں کیFBR سے مِلّی بھگت کا نتیجہ ہے۔ جب حکومت کوبھی پتہ ہے کہ خرابی کہاں پرہے تو پھر وہ اِس کاحل تلاش کیوں نہیں کرتی۔ حکومت مگر ایسا کرے گی نہیں کیونکہ اِنہی مگرمچھوں کے چندے سے سیاستدانوں کی آڑھت چلتی ہے۔ اگر حکمران صرف تنخواہ دار طبقے سے ہی ٹیکس وصول کرتی رہی اور اشرافیہ کی طرف سے آنکھیں بند کیے رہی توپھرIMF سے جتنا جی چاہے قرض لے لے ہماری بھوک کبھی ختم نہیں ہوگی۔ بقول غالب
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اب پاکستان میںاِسی فاقہ مستی کاجادو سَرچڑھ کر بول رہا ہے۔ ہماری معیشت تباہ، خزانہ خالی اور ڈیفالٹ کا منڈلاتا ہواخطرہ درپیش جس کی وجہ سے ہم IMF کے محتاج جواپنی شرائط پر قرضہ دیتا ہے۔ اِسی قرض کی وجہ سے دن بہ دن مہنگائی اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ اگرجنگِ عظیم دوم میں تباہ ہونے والے ممالک جرمنی اور جاپان اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے ہیں توہم کیوں نہیں؟۔ کرپشن کے علاوہ اصل دُکھ تویہ کہ ہمارا وہ نوجوان جس نے کل ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہے وہ دین سے دور ہوتا جارہا ہے اوراِن پُرفتن حالات میں اُس کی رَہنمائی کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ ہمارے علمائے کرام خود
عصری تقاضوں پرپورا نہیں اُترتے پھر بھلا وہ نوجواں مسلم کی رَہنمائی کے تقاضے کیسے پورا کر سکتے ہیں؟۔ ہمارے ہاں تو دینی مدرسوں میں اپنے اپنے فرقے کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے جس سے ہم فرقہ واریت کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اِسی فرقہ واریت کے زیرِاثر ہر فرقے نے اپنی اپنی مساجد اور اپنے اپنے مدارس کھول رکھے ہیں۔علامہ اقبالؒ تو بہت پہلے کہہ چکے
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
آج حالات مگر اِس سے بھی کہیں بَدتر۔ پوری اُمتِ مسلمہ زیرِعتاب۔ مسلمان 2ارب جبکہ اسرائیل کی کُل آبادی ایک کروڑ بھی نہیں۔ پاکستان ایٹمی ملک اور عرب تیل کی دولت سے مالامال۔ اِس کے باوجود اسرائیل فلسطین میں ظلم وبربریت کی ننگی داستانیں رقم کررہا ہے۔ 35ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے جن میں غالب اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے لیکن پھربھی مسلم اُمّہ خاموش ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘۔ اگر کہیں سے احتجاج کی آواز اُبھرتی بھی ہے تو اتنی کمزوروناتواں کہ سَر شرم سے جھُک جائیں۔ یہی حال کشمیر کاجسے مودی ہماری آنکھوں کے سامنے ہڑپ کرچکا لیکن ہم صرف منحنی سے احتجاج تک محدود۔
وہ نسلِ نَوجس نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہے اُسے موبائل فون، لیپ ٹاپ، ٹی وی اور انٹرنیٹ سے ہی فرصت نہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے انٹرنیٹ سے کچھ سیکھنے کے بجائے اسے تفریح کا ذریعہ بنالیا ہے جس سے اُن کی ذہنی تربیت ممکن ہے نہ فکری تربیت البتہ وہ اپنوں سے دور ہوتاچلا جارہا ہے۔ آجکل ہرشخص یہ رونا روتا نظر آتاہے کہ معاشرہ اور ماحول بہت خراب ہے۔ اِس خرابی کا باعث کون؟۔ بلاشبہ وہ والدین جواپنے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون اور لیپ ٹاپ تھماتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ بچوں کی عمرکا تقاضا کیا ہے۔ جب آپ اپنے چھ سات سالہ بچے کے ہاتھ میں موبائل فون تھما دیں گے تو خرابی توپیدا ہوگی لیکن ہم نے تو اِسے بھی سٹیٹس سمبل بنالیا ہے۔
بلاشبہ ترقی کا اہم ترین اور واحد ذریعہ تعلیم ہے لیکن تربیت کے بغیر محض تعلیم کے ذریعے کردارسازی ممکن نہیں۔ یہاں مگر حالت یہ کہ وہ دَور لَد چکا جب لوگ بڑے فخر اور احترام سے اپنے اساتذہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ آج جگہ جگہ تعلیمی منڈیاں کھُل چکیںجہاں صرف اشرافیہ کے بچے ہی تعلیم حاصل کرنے کاسوچ سکتے ہیں۔ عامیوں کے سکولوں کایہ حال کہ کہیں عمارت نہیں تو کہیں اساتذہ نہیں، ہم مگرچند دانش سکول کھول کراور لیپ ٹاپ تقسیم کرکے مطمئن۔ دانش سکول کھولنا اور لیپ ٹاپ تقسیم کرنا مستحسن مگر جہاں خزانہ خالی ہو، قوم نانِ جویں کی محتاج ہواور سب سے کم بجٹ صحت اور تعلیم کے لیے مختص کیا جارہا ہو وہاں دانش سکولوں کے بجائے اگر وہی بجٹ گورنمنٹ سکولوں کے لیے مختص کردیا جائے تو بہتری کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ اِس کے علاوہ ضرورت اِس امرکی ہے کہ ہمارے اساتذہ کی تنخواہیں کم ازکم اتنی ضرور ہوں کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرسکیں۔ آج حال یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ تنخواہوں کے علاوہ روزگار کے دیگر ذرائع کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی اُستاد ایساہو جو کسی نہ کسی اکیڈمی سے منسلک نہ ہو۔ اکیڈمیوں کا یہ ناسور جگہ جگہ پھیل چکا اور اساتذہ کا رجحان اپنے سکولوں کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے بجائے اِن اکیڈمیوں کی طرف۔ ایسے میں نسلِ نَو کاعصری تقاضوں پر پورا اُترنا ناممکن۔