روٹی مزید سستی کرو

دنیا میں کچھ ممالک تو یہ بات، چاہے اپنے ملک کی حد تک ہی سہی، سمجھ چکے ہیں اور جو ممالک اب تک بھی نہیں سمجھے انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خوراک ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔بدقسمتی سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں زراعت اور خوراک کی تقسیم میں ترقی کے باوجود آج بھی لاکھوں لوگ بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔

دنیا اسے فوڈ سکیورٹی کا نام دیتی ہے جس سے مراد ہر شخص کے لیے ہر صورت خوراک کی دستیابی ہے۔پاکستان سمیت متعدد ممالک میں یہ مسئلہ تو دو وقت کی روٹی تک بھی حل نہیں ہو سکا لیکن بین الاقوامی معیار تو اس بات کا متقاضی ہے کہ صرف خوراک کا میسر آنا ہی کافی نہیں بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ غذاکا مناسب معیار بھی برقرار رکھا جائے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہماری حکومتیں اپنے اللے تللے پورے کرنے کے لیے تو ہر قسم کے وسائل بروئے کار لانے میں کوئی بھی کسر اٹھا نہیں رکھتیں لیکن عوام کو دو وقت کی روٹی کی دستیابی، جو ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، جیسے اہم ترین مسئلہ پر ان کی کوئی توجہ نہیں۔ مختلف بین الاقوامی معاہدوں اور کنونشنز میں بھی ہر انسان کو خوراک کی دستیابی کو بنیادی انسانی حق کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اب یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی بہبود کو تو بے شک پس پشت ڈال دیں پر بین الاقوامی کنونشنز کے احترام میں اس بات کو تو یقینی بنائیں کہ کوئی فرد خوراک جیسی بنیادی ضرورت سے محروم نہ رہے۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں ہر سیاستدان اور ہر اعلیٰ سرکاری افسر مالی طور پر بے پناہ مستحکم ہے اور ان کی مالی حیثیت میں دن دوگنا اور رات چو گنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن اس کے برعکس حکومت کی حالت دن بدن پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ یعنی حکومت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے اور حکمران تگڑے ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی خاص پارٹی یا حکومت کی تو خیر بات ہی کیا کرنی یہاں تو بالعموم یہی صورتحال ہے کہ حکوتیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہر ممکن جگہ سے قرضے تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن یہ قرضہ کی رقم جانے خرچ کہاں ہوتی ہے کیونکہ سالہا سال سے غریب کی حالت جوں کی توں ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ مہنگائی کا تمام تر بوجھ تو غریب آدمی ہی برداشت کررہا ہے تو زیادہ غلط نہ ہو گا کیونکہ مہنگائی بڑھنے، پیٹرول، گیس یا بجلی کے بلوں میں اضافے یا پھر بلاواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار سب سے زیادہ ٖغریب آدمی کو ہی متاثر کر رہی ہے۔ اس بدترین صورتحال میں اگر عوام کے لیے کسی چھوٹے موٹے ریلیف کا اعلان ہوبھی جاتا ہے تو اول تو حکومت خود ہی اسے کسی نہ کسی طریقے سے ختم کرنے یا کوئی ایسا طریقہ استعمال کرنے کہ جس کے تحت اس ریلیف کو عوام سے واپس لیا جا سکے، کے درپے ہو جاتی ہے۔ اور اگر یہاں سے کچھ بچت ہو جائے تو سرمایہ دار اور بڑے کاروباری حضرات انہیں آڑے ہاتھوں لینے کے لیے ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں۔

اگرچہ ہمارے کلچر میں میں لنگر وغیرہ کا اہتمام کرنے کا کافی رجحان ہے اور نا صرف مزاروں اور درگاہوں پر بڑے پیمانے پر لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ کافی رفاعی ادارے اور عوام اپنی ذاتی حیثیت میں اس کار خیر میں حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے غربت کے ساتھ ساتھ پیشہ ور گداگری میں اس حد تک اضافہ ہو چکا ہے کہ اس قسم کا کام جتنے مرضی بڑے پیمانے پر کیا جائے کم ہی محسوس ہوتا ہے۔

ویسے تو ماضی کی تمام ہی حکومتوں نے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا لیکن مسٹر عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت کو اس سلسلہ میں نمبر ون پر رکھا جائے تو کوئی مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔ انہوں نے ریکارڈ مہنگائی کی، ریکارڈ قرضے لیے اور غریب کی بدحالی کو ریکارڈ حد تک پہنچا دیا۔ یہ سب کرنے کے ساتھ ساتھ بجائے اس کے کہ حکومتی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے جاتے انہوں نے لنگر خانے کھول کر اپنی حکومت کی کارکردگی دکھانے کی کوشش کی۔ اب ان اللہ کے بندوں کو کون سمجھا سکتا ہے کہ اس قسم کا کام تو عوام اپنی ذاتی حیثیت میں اور مختلف ادارے پہلے سے کر رہے تھے اور اگر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو اس میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری تو مہنگائی کنٹرول کرنا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے لیکن اس پر توجہ صفر رہی۔

ویسے توپاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کر کے(جو بعد ازاں قائم ہونے والی حکومتوں نے بھی جاری رکھا اور آج بھی جاری ہے) ہزار دو ہزار کے لیے عوام کی ایک بڑی تعداد کو بھکاریوں کی کیٹیگری میں ڈال دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ایک چھوٹی سے رقم لینے کے لیے دھکے کھانے والوں کے لیے کسی باعزت روزگار کا اہتمام کیا جاتا۔ لیکن شائد عوام کو لائنوں میں کھڑے رکھنے اور ان کی سوچ کو ایک حد سے اوپر نہ جانے دینا بھی ان حکومتوں کی پالیسیوں کا حصہ ہی ہوتا ہے۔

اگرچہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز نے عہدہ سنبھالتے ہی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی ہے اور اس سلسلہ میں کچھ نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ ماہ رمضان میں مہنگائی اور گراں فروشی کو کنٹرول رکھنا یقینا مریم نواز صاحبہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کی جانب سے اب روٹی کی قیمت میں چار روپے اور نان کی قیمت میں پانچ روپے کی کمی کا اعلان تو کر دیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ یہاں میرا تو حکومت کو مشورہ ہو گا کہ اگر ان کے پاس وسائل کم ہیں تو مخیر حضرات کو ساتھ شامل کر کے روٹی کی قیمت کو مزید کم کیا جائے۔ پی ٹی آئی راہنما تو پہلے اس فیصلہ کو سیاسی سٹنٹ اور ایک ناقابل عمل حکمت عملی قرار دے چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری وزیر اعلیٰ صاحبہ کس حد تک اور کتنی دیر تک اپنے فیصلہ پر عملدآمد کروا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پنجاب حکومت صرف روٹی کی ہی قیمت کم کرتی ہے یا دیگر اشیا ضروریا کی قیمتیں بھی کنٹرول میں لایا جاتا ہے۔