کچے کے ریٹائرڈ ڈاکو

اسرائیل، ایران کے بعد مقامی سطح پر بڑا چرچا کچے کے ڈاکوؤں کا ہے، ان دنوں جو بڑے متحرک ہیں، انھوں نے اپنا طریقہ واردات بھی بدل لیا ہے،”ہنی ٹرپ“ کے ذریعہ باکمال شخصیات کو وہ اپنے جال میں پھنسانے کی حتیٰ المقدور کاوش کرتے ہیں کہ متاثرہ ا فراد کے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں مگر ڈاکوؤں کو اپنے خوابوں کی تعبیر مل جاتی جو انھوں نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہوتے ہیں، اب سادہ لوح یہ ڈاکو نہیں ہیں، جو محض مال مویشی چوری کرتے، جنگلات کی لکڑی کاٹ لیں، سوشل میڈیا نے انکے نیٹ ورک بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان کے رابطے اب آسان تر ہو گئے ہیں،پورا پاکستان اب ا نکی ”مارکیٹ“ ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق تاوان کی مد میں انکی آمدن ایک ارب سالانہ ہے۔

ایک حل تو یہ ہے کہ جس طرح لیاری گینگ کا قلع قمع کیا ہے اسی طرح ارباب اختیا ر ان کو بھی ابدی نیند سلا دیں، ان سے بھاری اسلحہ، راکٹ لانچرز، مشین گن چھین کربھر پور کانفرنس کی وساطت سے قوم کو بتا دیں کہ انھوں نے کچے کے ڈاکوؤں کا صفایا کر دیا ہے،اب کسی بھی شاہراہ پر ٹرانسپورٹرز کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، نہ ہی کسی کے اغوا کا خدشہ ہے، لیکن ڈر ہے جب کبھی ایسا آپریشن ہوا تو نتائج ڈاکوؤں کے حق میں نکلیں گے، سوشل میڈیا کی وساطت سے معلوم ہوا ہے کہ جنگلوں میں روپوش اس طبقہ کے پاس سیکورٹی فورسز سے زیادہ جدید اسلحہ ہے، انھوں نے اب ڈرون سے اپنے علاقہ کی جاسوسی بھی کرنا شروع کردی ہے،سندھ سرکار کے ترجمان معترف ہیں کہ پولیس کی نسبت ان کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں، جو انھیں باآسانی مل جاتے ہیں۔

محتاط اندازے کے مطابق ڈاکو گذشتہ چالیس سالوں سے اندرون سندھ اپنی سرگرمیاں تواتر سے جاری رکھے ہوئے ہیں،انکے فرائض منصبی میں سرداروں، وڈیروں کو ووٹ ڈلوانا اور الیکشن ایجنٹس کو روکنا ہے تاکہ من پسند سردار، وڈیرے منتخب ہو کر ایوانوں میں پہنچ کر ان کی پشت پناہی کر سکیں۔

یہ تھیوری بھی زیر گردش ہے کہ یہی سردار،وڈیرے ڈاکوؤں کوذاتوں اور قبیلوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں،پرانے زمانہ میں ڈاکو اپنے نام سے جانے جاتے تھے،اب ذات اور قبیلہ،برادری ان کا تعارف ہے،کشمور، گھوٹکی، شکار پور کے علاقہ جات انکی آماجگاہیں ہیں، ان کا مسکن ہزاروں ایکٹر زرخیز زمین ہے جو محکمہ جنگلات اور مال کی ملکیت ہے، جن پر سرداروں، وڈیروں، اور افسر شاہی کا قبضہ بھی ہے، اس میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن صرف کاغذوں تک محدود رہے ہیں۔

ڈاکہ زنی کا کلچر سندھ میں سترھویں اور اٹھارویں صدی سے موجود ہے، ان کا محبوب مشغلہ اغواکاری کرنا ہے تاکہ اس کے تاوان سے ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے، تاوان کی بڑی رقم اسلحہ، بارود کی خریداری پر صرف کی جاتی ہے، بقیہ رقم عیاشی کے لئے مختص کی جاتی ہے، اپنی خدمت کے لئے لڑے لڑکیاں رکھتے ہیں، اندرون سندھ ہندو برادری کے تاجر ان کے آسان ٹارگٹ ہیں انھیں وہ اغوا کر کے تاوان لیتے ہیں، ماضی میں جاپانی سیاحوں کی اغوا کے بعد رہائی کا تاوان اُس وقت کی جام حکومت نے ادا کیا تھا، اس طبقہ نے اپنے کاروبار کو وسعت دی ہے او ر شاہراہوں پر خیبر پختونخواہ کے ٹرانسپورٹرز کو بھی اپنے نرغہ میں لینا شروع کیا ہے، انکی یہ کاوش اس لئے بھی ہے کہ وہ ان وارداتوں کی بدولت شمالی علاقہ جات کے دہشت گردوں کی طرح میڈیا پر آ سکیں اور سرکار انھیں بھی مذاکرات کی میز پر براجمان ہونے کی دعوت دے۔

اک زمانہ تھا جب پولیس کے مخبر کچے کے ڈاکوؤں کا سراغ لگاتے تھے اب ڈاکووں نے پولیس کے مخبر رکھ لیئے ہیں، اطلاعات ہیں کچھ بنک ملازمین بھی ان ڈاکوؤں کو اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں، جس اکاونٹ میں بھاری بھر رقم تسلسل سے آتی ہے، اس اکاونٹ ہولڈرز کی ریکی کر تے ہوئے اس کو اغوا برائے تاوان کیا جاتا ہے، اس خوف سے ہندو برادری کے تاجر طبقہ  نے مقامی سرداروں سے بیس فیصد کاروباری شراکت کی ہے تاکہ اغوا ہونے سے محفوظ رہیں، ضرویات زندگی کی اشیاء کی فراہمی بھی ان کا نیٹ ورک موجود ہے۔ اس شورش میں لیکن تعلیمی نقصان طلباء وطالبات کو ہورہا ہے امن وامان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں۔

سوشل میڈیا کی وساطت سے یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ ایسے ڈاکوؤں کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے، البتہ ان کے سہولت کاروں کی بابت عوام کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔ گزشتہ 40 سال سے بلا تعطل اپنی سرگرمیاں اگر وہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو اس پر کیا کوئی قومی تحقیقاتی کمیشن بنا، جو ان وجوہات کا جائزہ لیتا جس نے عام اور قبائلی لوگوں کو ڈاکو بننے پر مجبور کیا،اسکی روشنی میں سفارشات مرتب ہوتیں تو یہ معاملہ عالمی میڈیا میں رپورٹ نہ ہوتا، کس قدر افسوس ناک ہے کہ بعض تعلیم یافتہ افراد حالات اور قبائلی جھگڑوں کی بدولت اس دلدل میں اترے اورپھر کسی اندھی گولی کا نشانہ بن گئے۔

کچھ پولیس افسران نے کچے کا زرخیز رقبہ اس شرط پر دیا ہے کہ ڈاکوؤں کے گینگ ان کے علاقہ جات میں وارداتیں نہیں ڈالیں گے، گھوٹکی کے بدنام زمانہ ڈاکوؤں کے ایک گینگ نے جرائم چھوڑ کر زمین داری شروع کر دی یوں وہ ڈکیتی کی وارداتوں سے ریٹائرڈ ہو کر امن کی زندگی گزار رہے ہیں، ڈاکو ذاتی تقریبات بھی منعقد کرتے اور ہر طبقہ کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق بعض ڈاکو اپنے بچوں کو بیرون ملک پڑھانے کے خواہش مند ہیں، اپنے تجربہ کی بنیاد پر ان کا کہنا تھا کہ بدنام زمانہ ڈاکو پولیس اور سرداروں کے مظالم سے بنے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر سزا صرف ڈاکوؤں ہی کو کیوں ملے؟سندھ میں عام شہریوں کی محرومیوں میں بڑا حصہ جاگیر داری نظام کا بھی ہے، جسکی بھینٹ تعلیم یافتہ افراد چڑھ رہے ہیں، جو بعد ازاں تنگ آمد بجنگ آمد کے طور پر ڈاکوؤں کے کیمپ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

روایت ہے کہ لاکھوں ایکڑ کچے کا رقبہ محکمہ جنگلات اور مال کا ہے جو کسی کو باضابطہ الاٹ نہیں ہے۔ سرکار معاملہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دے، ا س پیشہ کو اختیار کرنے کی وجوہات تلاش کرے،مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائے، نسل در نسل سے قبائلی جھگڑوں کو ختم کروائے، مجرموں کو سزا دے، طاقت میں نشے میں سب کو مارنا دانشمندی نہیں اس کی بجائے انھیں دریائے سندھ سے ملحقہ کچے کا رقبہ عارضی طور پر الاٹ کرکے انھیں زمین داری پر آمادہ کرے تو غالب امکان یہی ہے کہ گھوٹکی گینگ کی طرح کچے کے بدنام زمانہ ڈاکو اس پیشہ سے ریٹائرڈمنٹ بھی لے سکتے ہیں،آزمائش شرط ہے۔