گذشتہ سے پیوستہ کالم میں پنجاب حکومت کی اٹھان اور شاندار آغاز پر کچھ معروضات سپردِ قلم کی تھیں جس پر بہت سے مہربان احباب جوکہ بولتے الفاظ کے مستقل قارئین بھی ہیں انکی قیمتی آرا موصول ہوئیں۔ میں بلا جھجک بلکہ برملا یہ اقرار کرتا ہوں کہ جب کوئی مخلص اور صاحب الرائے شخص حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرتا ہے تو یقیناً ایسا بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کو ملتا ہے جو اخبارات کے صفحات، ٹی وی سکرین یا آپکا موبائل بھی نہیں دکھا پاتا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ابتدائی طور پر اپنی کابینہ میں پرجوش نوجوانوں اور منجھے ہوئے تجربہ کار وزرا کے امتزاج کیساتھ اہلِ پنجاب کی خدمت کے سفر کا آغاز کیا ہے جو کہ بادی النظر میں خیر کی خبر ہی دے رہا ہے۔ کم و بیش تمام محکموں اور اداروں میں مثبت ہِل جُل (ہلچل) دیکھنے میں آرہی ہے اور ساتھ ہی بے جا تنقید کے ماہرین نے اپنے نشتر بھی تیار کرنا شروع کر دیئے ہیں جس سے پریشان ہونے کے بجائے مزید محنت کے ذریعے انہیں ناکارہ بنانے کی سعی درکار ہے۔ ظاہر ہے جب کچھ اچھا ہوگا تو بہت سوں کو ناگوار بھی گزرے گا اور یہ کوئی نئی بات نہیں نہ ہی یہ کوئی انہونی ہے کیونکہ انسانی معاشرے میں ابتدائے آفرینش سے ہی نیکی اور بدی، خیر اور شر، بہتری اور بگاڑ کیلئے کوششیں کرنے والوں کی معرکہ آرائی جاری و ساری ہے۔ پنجاب کی اپنی ایک سیاسی تاریخ ہے اور حکومتوں کے اقدامات بھی اپنے اثرات و نقوش چھوڑ کر جاتے ہیں۔ میں آج کے بولتے الفاظ میں بہت پرانی پرانی یادیں تازہ کرنے اور ماضی کے قصہ ہائے ملامت و بشاشت لکھنے کے بجائے ماضی قریب یعنی بالکل چند ماہ پہلے نگران حکومت کے کچھ اقدامات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اپنی مستعد و توانا ٹیم کیساتھ ایک سال بھر پنجاب میں تعمیر و ترقی کا پہیہ جس سپیڈ سے گھمایا اس کا تسلسل کہیں کہیں نظر آتا ہے اور کہیں بالکل بریک لگا دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر محکمہ صحت کو ترقی کی جس شاہراہ پر گامزن کیا گیا تھا اس نے اپنا سفر اسی طرح جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔ خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر مکمل تندہی اور انہماک کیساتھ مصروف عمل ہیں اور انتظامی امور کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی کو بھی احسن انداز میں مزید تیز کیا جا رہا ہے۔ ہسپتالوں کی حالت میں بہتری لائی جا رہی ہے اور کئی عینی شاہدین کے مطابق مفت ادویات و با سہولت علاج معالجے کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع کیا جا چکا ہے۔ صوبے بھر کے متعدد ہسپتالوں کی ری ویمپنگ کو جلد تکمیل تک پہنچانے کیلئے دن رات کام ہو رہا ہے۔ چک نمبر 62\4R قادرآباد ساہیوال سے ایک دیہاتی بزرگ نے بتایا کہ ہمارے مقامی ہسپتال کو دل والا ہسپتال بنا کر دراصل یہاں بسنے والے ہزاروں غریب مریضوں پر احسان کیا جا رہا ہے اب ہمیں لاہور آنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ تو ایک گواہی ہے اسی طرح کا انقلاب وزیر آباد، ملتان، اور راولپنڈی سمیت کئی اضلاع کے بعد اب سرگودھا میں بھی لایا جارہا ہے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے کے مصداق خواجہ سلمان رفیق نے ثابت کیا ہے کہ وہ اور انکی حکومت پنجاب کے عوام کو صحت کی سہولیات انکی دہلیز پر پہنچانے کی خاطر صرف متفکر ہی نہیں کوشاں بھی ہیں۔ اگر محکمہ تعلیم کی بات کریں تویہاں ہر دم پُرعزم نوجوان وزیر تعلیم رانا سکندر حیات بہت مختصر وقت میں ایک برینڈ بن گئے ہیں۔ انہوں نے جس جرأت اور بہادری سے میٹرک کے حالیہ امتحانات میں نقل مافیا کا تعاقب کیا اور آنِ واحد میں انکا قلع قمع کیا اس پر داد تو بنتی ہے یہی نہیں متنوع تعلیمی پالیسی کے ذریعے بہت کچھ بدلنے جا رہا ہے۔بہرحال اساتذہ کی توقیر اور طلبہ کے حقوق ہر دو طرف یکساں توجہ کی ضرورت ہے۔اسی طرح یوتھ افیئرز، سپورٹس کے ذریعے نوجوانوں کیلئے صحت مندانہ سرگرمیوں کا بندوبست و فروغ ایک نوجوان فیصل ایوب کھوکھر کے ذمہ لگایا گیا ہے۔ محکمہ سوشل ویلفیئر کا قلمدان بھی ایک محنتی نوجوان وزیر سہیل شولت بٹ کو سونپا گیا ہے جن کی شبانہ روز کارکردگی سے مفلوک الحال، بے سہارا اورمستحق غربا کی دادرسی کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ یہاں محکموں کو انتظامی طور پر چلانے والے سول بیوروکریٹس کا تذکرہ بھی ضروری ہے جن کی جانفشانی سیاسی حکومتوں کیلئے اکسیر کا کام کرتی ہے۔ لیکن خو گر ِحمد سے تھوڑا سا گِلہ بھی سُن لیجئے کہ چند ایک محکموں پر سے توجہ ہٹی ہوئی بھی معلوم ہوتی ہے جن میں پنجاب اوقاف اور مذہبی اُمور سرفہرست لگتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پرعید کی چھٹیوں میں ملتان جاتے ہوئے پاکپتن حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر کے مزارپر جانے کا اتفاقیہ موقع میسر آیا تو مجھے حیرانی بلکہ پریشانی ہوئی کہ ابھی چند ماہ قبل نگران دور میں یہاں بڑے زور شور سے کشادگی اور آسائش کے منصوبے شروع ہوئے تھے لیکن اب صورتحال یکسر بدلی ہوئی تھی۔یوں لگ رہا تھا کہ کوئی پرسانِ حال نہیں۔ چھٹیوں کے باعث زائرین کا رش تھا اور سب کے سب پریشان تھے یہاں تک کہ رستے بھی تنگ و تاریک کر دیئے گئے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ مسدود کر دیئے گئے۔ یہی حال ملتان کے مزارات پر نظر آرہا تھا۔ نہ جانے ایسی کونسی تبدیلی آئی کہ محسن نقوی جن کی ترجیح اوّل یہی مزارات تھے کبھی لاہور میں حضرت داتا گنج بخش، کبھی میاں میر تو کبھی بی بی پاکدامن کے دورے، کبھی ملتان اور پاکپتن تو کبھی راولپنڈی کے پھیرے تھے اور ہر جگہ تعمیر و ترقی کا دور دورہ تھا۔حکومت کے بدلنے کا اثر جتنا اثر اوقاف ڈیپارٹمنٹ نے لیا شائد ہی کسی نے لیا ہو۔ میرے خیال میں باقی تمام شعبوں کی طرح اوقاف و مذہبی امور کے زیر اہتمام مزارات و پراپرٹیز کی دیکھ بھال بھی اتنی ہی اہم ہے اور یہاں بھی تعمیر و ترقی کا تسلسل اتنا ہی ضروری ہے جتناکسی اورشعبے میں کیونکہ یہ شعبہ بھی براہِ راست عامۃ الناس کی دلچسپی و مصروفیات سے تعلق رکھتا ہے۔یہ عقیدت کے مراکز بھی ہیں اور فلاح عامہ کے منصوبے بھی ہیں۔ کارکردگی جانچنے سے پہلے ترجیحات کے تعین کو پرکھا جانا چاہئے اور کسی بھی قسم کی درجہ بندی کرتے ہوئے محکمے کی کم یا زیادہ اہمیت کو ملحوظ رکھنے کے بجائے عام آدمی کی سطح پر آ کر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔