نزاکت علی بھٹی، 48سالہ رفاقت ٹوٹ گئی

بچھڑنا تو ایک دن ہم سب نے ہے اور رہے نام اللہ کا۔ یہ عیدالفطر کا تیسرا دن تھا، میرے بڑے بیٹے میاں فراز الحق نے کہا کہ تارا گروپ کا ایڈ جیو ٹی وی پر چل رہا ہے تو آپ بھٹی صاحب سے کیوں نہیں بات کرتے۔ میں نے اسی لمحے نزاکت بھٹی کو فون کیا۔ روایتی عید مبارک دینے کے بعد اشتہار کے لئے عرض کیا تو کہنے لگے ”کاکا میں پرنٹ دیکھتا ہوں“۔

وہ مجھے پیار سے میری 71 سال کی عمر میں بھی مجھے ”کاکا“ کہتے تھے۔
گو کہ میرا ان کے ساتھ تعلق پچھلے 48 سال سے تھا۔ تو ”تم کل دفتر آ جانا، میں الیکٹرانک میڈیا کے جی ایم مارکیٹنگ سے تمہاری بات کرواتا ہوں“ اور فون بند ہو گیا۔ بروز اتوار یعنی عید کے چوتھے دن گیارہ بجے مجھے وٹس ایپ پر ایک میسج ملتا ہے کہ نزاکت علی بھٹی قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے ہیں۔ یہ واٹس ایپ میسج پڑھتے ہی میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ خبر غلط ہے یا صحیح۔ اتنی دیر میں میری ”کپتی“ آئی اور پوچھا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں۔ جب میں نے وٹس ایپ میسج اس کی آنکھوں کے سامنے رکھا تو اس کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے۔

نزاکت علی بھٹی کی اچانک وفات سے موت پر جو تھوڑا بہت جو اعتبار تھا وہ بھی اٹھ گیا ہے، اس کا کوئی پتہ نہیں، کب زندگی کا دروازہ بند کرکے آپ کو لحد کی طرف لے جائے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جو وقت اس ذات باری تعالیٰ نے موت کا جو مقرر کر دیا ہے اس کو کوئی مٹا نہیں سکتا مگر میرے نزدیک زندگی کے سفر میں نزاکت علی بھٹی جیسے کچھ پیارے ساتھی ایسے ہوتے ہیں جن کے بچھڑنے کا بہت دکھ ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ دکھ اندر سے توڑ کے رکھ دیتا ہے۔ میری ان کے ساتھ 48 سالہ رفاقت میں وہ ہمیشہ مزاح کے ساتھ نہ صرف میری دلجوئی کیا کرتے تھے بلکہ میرے مشکل حالات میں ان کی طرف سے کوئی نہ کوئی مدد بھی آ جاتی تھی۔ 48 سال پہلے جب وہ ”سیڈ کارپوریشن“ میں میڈیا منیجر یعنی وہ رابطہ آفیسر تھے تو بھٹی صاحب نے اپنی پوری زندگی میں رابطے رکھے اور پھر کیا ہوا کہ انہوں نے گزشتہ دنوں دنیا سے ہی رابطہ توڑ لیا۔

یہ غالباً 1974ء کی بات ہے نوائے وقت کے سپورٹس رپورٹر اور نامور صحافی سلطان عارف سے میرا پہلا رابطہ ہوا تو انہوں نے مجھے سپورٹس کے میدانوں کی نہ صرف راہ دکھائی بلکہ میری انگلی پکڑتے ہوئے کبھی کرکٹ، کبھی ہاکی، کبھی کالجز اور کبھی یونیورسٹیوں کے سپورٹس کے میدانوں میں لے کر چلتے رہے۔ سلطان عارف مرحوم سپورٹس کے علاوہ کلچر سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ان دنوں ایک کلچر تنظیم ہوتی تھی جس کے سربراہ ایس ایم ظفر مرحوم اور جمیل گشکوری ہوا کرتے تھے اور لاہور کی کوئی بھی ایسی کلچر تقریب نہیں تھی جس میں ایس ایم ظفر، سلطان عارف، جمیل گشکوری اور نزاکت علی بھٹی شرکت کرتے۔ انہی دنوں میرا پہلا تعارف سلطان عارف نے بھٹی صاحب سے 1974ء میں کروایا۔ سلطان عارف غالباً 20 سال پہلے دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کا نزاکت بھٹی سے ان کا میرا جوڑا ہوا تعلق ایک مضبوط ستون میں ڈھل چکا تھا۔

فریدا خاک نہ نِندیے
خاکو جیڈ نہ کوئی
جیوندیاں پیرا تھلے
مویاں اوپر ہوئی

بابا فریدؒ کا یہ شعر جس میں بابا فریدؒ فرماتے ہیں کہ خاک کو برا نہ کہو اس جیسی عظیم شئے کوئی نہیں۔ جب ہم زندہ ہوتے ہیں تو یہ خاک ہمارے پاؤں کے نیچے ہوتی ہے مگر جب ہم مر جاتے ہیں تو یہی خاک ہمارے اوپر آ جاتی ہے۔ بھٹی صاحب اکثر بابا فریدؒ کا یہ شعر اور ترجمہ مجھے سنایا کرتے تھے۔ ان کی وفات پر آج مجھے بھی بابا فریدؒ کی شدت سے یاد آ رہی ہے کہ نزاکت علی بھٹی بھی آج مٹی کا ہو کر رہ گیا ہے۔ میرے بیٹے محمد سلمان جو کہ لاہور چیمبر میں کریٹیو ہیڈ ہے اس کے ساتھ ان کا تعلق ایک باپ بیٹے کی طرح کا تھا اور وہ روزانہ اس سے چائے پینے کے لئے بہت دور سے آتے تھے، یہ ان کا پیار تھا۔

نزاکت علی بھٹی اپنی ذات میں زراعت کے سب سے بڑے انسائیکلو پیڈیا تھے اور وہ جہاں ہوتے زراعت کے امور پر بڑی کھل کر بات کرتے اور مجھے اس وقت دیکھ کر حیرانی ہوتی کہ جب وہ کسانوں کے بارے میں، کسانوں کی دھرتی کے بارے میں، کسانوں کی فصل اور بیج کے بارے میں اس طرح کا اظہار کرتے کہ جیسے وہ خود بہت بڑے زمیندار ہیں۔
اک مصلحت نے باندھ کہ رکھا تمام عمر
کہ جانتا تھا تجھ سے بچھڑنا ہے ایک دن

نزاکت علی بھٹی نے اپنی آخری زندگی کے غالباً دو ادوار تارا گروپ جو کہ پاکستان کی زراعت کا بڑا ادارہ ہے اور اس ادارے کی خدمات زراعت کے حوالے سے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، اس کے روح رواں ڈاکٹر خالد حمید کے بارے میں نزاکت بھٹی ایک عاشقانہ رویہ رکھتے تھے۔ میں نے جب بھی بھٹی صاحب سے انٹرویو کی گزارش کی تو کہتے تھے کہ ”جو انہوں نے کہنا ہے میں لکھ دیتا ہوں“ اور پھر بہت سے انٹرویو انہوں نے مجھے بھیجے۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ میں روزانہ اپنے ادارے کے لئے اشتہار کی بات کرنے چائے کے بہانے ان کے آفس جایا کرتا تھا تو پوری گفتگو کے دوران وہ ڈاکٹر خالد حمید کے بارے میں بہت فکرانگیز گفتگو کرتے تھے۔ ان کی نظر میں ڈاکٹر خالد حمید ہی زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
پیارے پڑھنے والو……!

میں بڑے افسردہ اور ٹوٹے بکھرے دل اور روتی آنکھوں سے اس انسان کے بارے میں بڑی ہمت کرتے ہوئے دو لفظ لکھ رہا ہوں کہ نزاکت علی بھٹی اب ہم میں نہیں ہیں اور جب تک میری زندگی کی سانسیں برقرار ہیں، اب کبھی مجھے کوئی ”کاکا“ کہہ کر پکارے گا نہیں، اب کبھی میں نزاکت علی بھٹی کو نہیں دیکھ پاؤں گا کہ ان کے ساتھ 48 سالہ رفاقت کیا ٹوٹی کہ زندگی سے بھی اب ایک اعتبار سا اُٹھ گیا ہے۔