بہاولنگر واقعہ اور کرپٹ پولیس

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت ایک اجلاس میں کرپٹ پولیس کو خصوصی عدالتوں سے سزائیں دلوانے کی بات کی گئی ہے اور فیصلہ ہوا کہ بہاول نگر کے ایک پولیس سٹیشن میں پیش آنے والے واقعات کی شفاف اور مشترکہ تحقیقات کی جائیں گی تاکہ اصل حقائق کو منظر عام پر لایا جا سکے اور قانون کی خلاف ورزی اور اختیارات کا غلط استعمال کرنے والے ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا واقعہ پیش کیوں آیا؟ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں مختلف سطح پر اختیارات کا نا جائز اور غیر قانونی استعمال ہوتا ہے اور پولیس اس میں سب سے آگے ہے،بہاول نگر میں پاک فوج تو بعد میں حرکت میں آئی دیکھنے کی ضرورت یہ ہے کہ اس سے پہلے کیا ہوا؟

کیا یہ بات سمجھنے یا سمجھانے کے لیے سائنسی دماغ ہونا ضروری ہے کہ پاکستان میں پولیس کی جانب سے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے اور اختیارات کا یہ استعمال اس قدر زیادہ ہے کہ پاکستان میں پولیس گردی کی اصطلاح تک رائج ہو گئی، بغیر وارنٹ کسی کے گھر میں داخل ہو جانا تو اس کے لیے معمولی بات ہے، یہ گھروں میں صرف داخل ہی نہیں ہوتی بلکہ توڑ پھوڑ بھی کرتی ہے اور مطلوبہ شخص اگر نہ ملے تو اس کے کسی عزیز رشتہ دار کو اٹھا لے جاتی ہے اور ایسے کیس تو اب روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں کہ کسی ملزم کی ضمانت ہوتی ہے وہ عدالت سے باہر نکلتا ہے تو اسے دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

خیال یہ کیا جاتا ہے کہ پولیس میں اختیارات کا ناجائز استعمال اس وقت شروع ہوا جب اس ادارے، اس کے افسران اور اہلکاروں کو قانون کے نفاذ اور امن و امان برقرار رکھنے کی ڈیوٹی سے ہٹا کر سیاست میں رنگ دیا گیا، پولیس اہلکاروں سے سیاسی کام کرائے گئے اور انہیں اس کے بدلے میں ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس ادارے میں کام کرنے والے خود کو ہر طرح کے احتساب سے بالاتر تصور کرنے لگے اور یہ توآپ جانتے ہی ہیں کہ جب مجسٹریسی جیسا چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود نہ ہو اور اختیارات بھی بے تحاشہ حاصل ہوں تو ان کے ناجائز استعمال کی راہیں خود بخود کھل جاتی ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پولیس کے تعاون کے بغیر الیکشن ہتھیائے جا سکیں؟ زمینوں پر قبضے کیے جا سکیں؟ مخالفین کو دبایا جا سکے؟
بہاول نگر میں رونما ہونے والے واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں اطراف جو ہوا غلط ہوا مگر کوئی یہ بتائے گا کہ پولیس ہر روز عوام پر جو ظلم و تشدد کرتی ہے لوگوں کے گھروں میں بغیر وارنٹ اور سیڑھیاں لگا کر جس طرح داخل ہوتی ہے اور جو حرکتیں کرتی ہے کیا وہ جائز ہیں؟ پولیس کو پہلی دفعہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ مد مقابل اس سے زیادہ طاقت ور تھا، اگر اصلاح احوال کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہ اٹھایا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہر سطح سے اسی طرح مزاحمت ہو گی، پولیس کے اعلیٰ حکام کو سوچنا ہو گا کہ وہ سیاسی آلہ کار بننا چھوڑ دیں قانون پر چلیں اور نچلی سطح کے اہلکاروں کا اخلاق اور معاشی حالت کچھ بہتر کریں،یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ پولیس کا مدِ مقابل اگر اس سے زیادہ طاقت ور نہ ہوتا، کوئی عام بندہ یا ادارہ ہوتا تو پولیس نے اس کی کیا حالت بنا دینی تھی اب تک؟

حقیقت یہ ہے کہ جرائم کی روک تھام کے لیے بنایا جانے والا پولیس کا محکمہ جرم ہونے سے پہلے تو کیا جرم ہونے کے بعد بھی از خود لوگوں کی مدد کے لیے نہیں پہنچتا، اگر کسی دباؤ کے تحت پولیس والوں کوآنا پڑے تو فوری کارروائی کے بجائے وقت ضائع کیا جاتا ہے اور معاملات کو الجھا کر پیچیدہ بنایا جاتا ہے تاکہ جرائم پیشہ عناصر ان کی رسائی سے دور ہو جائیں اور پولیس والوں کو وہاں سے کچھ مال پانی مل جائے یا پھر انہیں مجرموں کو پکڑنے کے لیے تگ و دو نہ کرنا پڑے۔ کسی واقعہ کے رونما ہونے کے بعد ایف آئی آر درج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لیکن پاکستان میں ایف آئی آر درج کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، لوگ انصاف ملنے کی آس میں دس بارہ دن تھانے کے چکر لگا لگا کر تھک ہار جاتے ہیں اور خاموشی اختیار کر لیتے ہیں‘ لیکن ایف آئی آر درج نہیں ہوتی، اگر ہو بھی جائے تو ممکن ہے پولیس والے سارا قصورآپ کا ہی نکالیں، ایسے میں لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں، لیکن یہ معاملہ سب کے ساتھ نہیں ہے‘ صرف غریب اور متوسط طبقے کے عوام کے ساتھ ہے، اگر کوئی امیر بندہ شکایت لے کر تھانے جائے تو فوراً داد رسی کی جاتی ہے، بلکہ سننے میں آتا ہے کہ طاقتور افراد تو اپنے علاقے میں اپنی پسند کا تھانے دار لگواتے ہیں تاکہ وہ اسے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر سکیں اور اپنے کام کروا سکیں۔

معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ پولیس کا یہی جانب دارانہ رویہ اور طرزِ عمل ہے، اسی کو تھانہ کلچر کہا جاتا ہے، اس کلچر میں سرکاری کے ساتھ ساتھ ایک متوازی غیر سرکاری نظام بھی چلتا ہے جو اصل میں پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے، سیاست دانوں سے لے کر بیوروکریسی تک اور اعلیٰ پولیس افسر سے لے کر عام سپاہی تک سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔ چند ماہ پہلے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کا نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے جاری کیا تھا جس میں پولیس کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا گیا تھا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو محکمہ کرپشن میں پہلے نمبر پر ہو اس کی کارکردگی اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے، جو ہم سب کو نظرآتی ہے۔ پولیس میں آج بھی عوام کی خدمت کے بجائے اپنا آپ سنوارو کلچر چل رہا ہے، ایسے میں بہتری آئے تو کہاں سے؟

برطانیہ کی پارلیمنٹ نے پولیس ایکٹ 1861 میں بنایا تھا جس کا مقصد ہندوستان کے عوام کو اپنا غلام بنائے رکھنا، ان کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرنا اور برطانیہ کے قومی مفادات کو تحفظ دینا تھا، جب یہ ایکٹ منظور ہوا تو اس وقت کے ہندوستانی لیڈروں نے اسے کالا قانون قرار دیا تھا، انگریزوں کا دیا ہوا پولیس ایکٹ ہمارے ملک میں 2002 تک جاری رہا، کسی حکومت نے اس ایکٹ کو تبدیل کرنے یا اس میں مناسب تبدیلیاں لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، اصلاح کہاں سے ہوتی، معاشرے میں امن سکون کہاں سے آتا؟ بتایا جاتا ہے کہ اس دوران مختلف کمیٹیوں نے انگریزوں کے ایکٹ کو تبدیل کرنے کے لیے 30 رپورٹیں تیار کیں مگر ان پر عمل نہ کرایا گیا۔ جنرل مشرف کے دور میں عوامی مشاورت کے ساتھ پولیس ایکٹ 2002 تیار کیا تھا جس کو پولیس کے تمام ماہرین نے سراہا لیکن افسوس کہ بعد میں برسر اقتدارآنے والی حکومتوں نے اس نظام کو جاری رکھنے پر مناسب توجہ دی اور نہ ہی مجسٹریسی جیسے کسی دوسرے نظام کوسامنے لایا گیا جو پولیس کے لئے چیک اور بیلنس ہو۔