عوام کی حالت کب درست ہو گی؟

 

جاری سیاسی بندوبست جو انتخابات 2024 کے نتیجے میں قائم کیا گیا ہے، کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں قسم کی آراء پائی جا رہی ہیں کچھ لوگ تو انتخابی نتائج کو ہی نہیں مانتے اور پھر ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کے ناجائز ہونے اور جلد ہی ناکام ہونے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ویسے شہباز شریف کی سربراہی میں قائم حکومت بھی عجیب ہے جس کے قیام میں تو پیپلز پارٹی شامل ہے، پیپلز پارٹی نے اتحادی کے طور پر اعلیٰ قسم کے آئینی عہدے تو حاصل کر لئے ہیں لیکن کابینہ میں شرکت سے معذرت کر لی ہے یعنی وہ حکومت کا حصہ بھی نہیں لیکن اس کے فیصلوں کے نتائج کے بارے میں شریک نہیں ہوں گے۔ گویا انہیں مثبت نتائج کی امید ہی نہیں ہے اس لئے وہ کابینہ کا حصہ نہیں بنے ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی کاوشوں کا اعتراف بھی کر چکی ہے یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی پیپلز پارٹی، ن لیگ وغیرہم کے بارے میں اپنے دیرینہ موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی پاکستان کے تمام مسائل کے لئے طویل عرصے تک حکمرانی کے مزے لوٹنے والی جماعتوں بشمول ن لیگ اور پیپلز پارٹی اور ان کی خاندانی قیادتوں بشمول بھٹو، شریف خاندانوں کو ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اپنے اسی موقف کے باعث پی ٹی آئی کو عوام میں پذیرائی ملی ہے اس پر مزید یہ کہ فوج کا حکومتیں بنانے اور گرانے میں کردار بھی سخت تنقید کی زد میں ہے اس حوالے سے ہماری ساری جماعتیں ہی کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی طرح تنقید کرتی رہی ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ایسی تمام قیادتیں، فوج کی مدد سے ہی اقتدار تک پہنچتی رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محمد نوازشریف اور شہباز شریف تک سبھی فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر ایوان اقتدار تک پہنچے۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر اکثر کی فوج سے لڑائی ہو جاتی رہی ہے اور پھر انہیں فوج
کے اس کردار میں نقص نظر آنے لگتے ہیں جو وہ انہیں اقتدار میں لانے کے لئے ادا کرتی رہی تھی۔ عمران خان اس کی زندہ مثال ہیں یہ ظاہراً اور عملاً فوج کے کندھوں پر چڑھ کر بلکہ فوج کی گود میں بیٹھ کر اقتدار
میں آئے۔ یہ آرمی چیف جنرل باجوہ اور آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے گن ہی نہیں گاتے تھے بلکہ گیت گایا کرتے تھے، تعریفوں کے پل باندھتے تھے کھلے عام فوج کے سیاسی کردار کی تحسین فرمایا کرتے تھے جس طرح عمران خان کو فوج نے اپنے مخالفین کو منظر سے ہٹانے کے لئے استعمال کیا وہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے پھر عمران خان نے اقتدار میں آ کر جس طرح فوج کی مٹی پلید کی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ عمران خان سے پہلے سیاستدان فوج سے، اس کے کردار سے اختلاف کیا کرتے تھے، اس پر دھیمے سروں میں تنقید بھی کیا کرتے تھے لیکن حد ادب میں رہ کر، اپنی اوقات کے مطابق عمران خان نے تو تمام حدیں پار ہی نہیں کیں بلکہ پامال کر ڈالیں۔ 9 مئی کا واقعہ سقوط ڈھاکہ سے کسی طور کم نہیں ہے۔ عمران خان نے ریاستی علامات پر حملہ آور ہو کر تمام حدیں کراس کر دیں۔ اپنی ہی فوج، اپنی ہی ریاست کی تذلیل و تضحیک کر کے ملک و ریاست دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ سردست عمران خان کی قبولیت کا گراف صفر یا اس سے بھی نچلے درجے پر ہے انہیں اپنے کئے پر کوئی پشیمانی نظر نہیں آ رہی ہے وہ پہلے کی طرح ہی دھاڑ رہے ہیں، للکار رہے ہیں جبکہ فضل الرحمن جیسے سیاستدان ان کے ساتھ مل کر حکومت گرانے یا الیکشنوں میں دھاندلی کے خلاف گرما گرم تحریک چلانے کے لئے پَر تول رہے ہیں۔ عید کے بعد معاملات گرم ہونے کی شنید ہے۔ دوسری طرف حکومت عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہی ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں دھڑا دھڑ بڑھائی جا رہی ہیں۔ ٹیکسوں پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ ٹیکسوں کے جال بچھائے اور چھوٹی بڑی مچھلیاں پھنسانے کی مہمیں شروع کی جا رہی ہیں، ٹیکسوں کے جمع کرنے کے اہداف بلندی کی طرف جا رہے ہیں اور معاشی نمو یا سرگرمی نہ ہونے کے باوجود 9 ہزار ارب سے زیادہ کے ٹیکس جمع کرانے کا ہدف اپنی پوری آن بان کے ساتھ پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔
دوسری طرف سٹاک مارکیٹ انڈکس چھلانگیں لگاتا، حدود پھلانگتا چلا جا رہا ہے۔ معاشی منظر پر کسی قسم کی سرگرمی نہ ہونے کے باوجود انڈکس کچھ مثبت خبروں کے باعث بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہمارے قرض خواہان، ہماری کارکردگی کے بارے میں رطب اللسان ہیں کیونکہ ہم ٹیکس اکٹھا کرنے اور ٹیکس وصولیوں کے اہداف ہر طرح کے حیلے ہتھکنڈوں کے ذریعے پورے کرتے چلے جا رہے ہیں ان کے حکم مانتے چلے جا رہے ہیں اس لئے وہ ہمارے لئے تعریفوں کے پل باندھتے چلے جا رہے ہیں۔ ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف، بلوم برگ ہو یا ایسے ہی دیگر عالمی زری و مالیاتی ادارے، ہماری معاشی کارکردگی کو سراہتے چلے جا رہے ہیں۔ حکمران قرض ملنے اور ملتے ہی چلے جانے کی خوشخبریاں سنا کر عوام کو طفل تسلیاں دیتے نظر آ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ڈگمگاتی معیشت سنبھل گئی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھی بہتر ہو رہے ہیں تجارتی خسارہ بھی کم ہو رہا ہے۔ نئے قرضوں کے حصول کی راہیں بھی ہموار ہو گئی ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست ہو گا لیکن عوام کی حالت کب درست ہو گی۔ کسی کو کچھ پتا نہیں ہے۔