ترکیہ سیاست کی کروٹ

اگر بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی بنیادی اکائی کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا مگر ترکیہ جہاں ریاستی انتخابات منعقد نہیں ہوتے وہاں صدر اور پارلیمان کے بعد جمہوریت کا اہم ترین حصہ ہیں اِس ملک میں 31 مارچ اتوار کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے سبھی کو چونکا دیا ہے اور سوالات گردش کرنے لگے ہیں اول۔ صدر ایردوان غزہ بارے عوامی امنگوں کے منافی پالیسیوں کی بدولت مقبولیت کھوچکے؟ دوم۔ نوجوان طبقے کاحکمران آق پارٹی سے دل بھر گیا ہے؟ سوم پنشن میں اضافہ نہ کرنا لے ڈوباہے اور پنشن پر گزارہ کرنے والے پندرہ ملین افراد نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے حکمران جماعت کو سبق سکھایا ہے؟ ایسی عبرتناک شکست کسی کے وہم و گمان میں نہ تھی ابھی گزشتہ برس منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا بمشکل نو ماہ بیتے ہیں جن میں ایردوان صدر منتخب ہوئے اتنی جلدی رائے عامہ کابدلنا حکمران جماعت کے لیے تازیانے سے کم نہیں جب صدر ایردوان نے خود بھی انتخابی مُہم میں بھرپور حصہ لیا اور ایک مہینے میں ملک کے طو ل و عرض میں لگ بھگ 52 شہروں کے دورے کیے اور عوامی اجتماعات سے خطاب کے دوران نہ صرف کارکردگی پیش کی بلکہ مستقبل کے حوالے سے ووٹروں کو اعتماد میں لیا جب نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا دوروں اور خطابات سے بات نہیں بنی اور تمام حربے ناکام ثابت ہوئے اورووٹروں نے تبدیلی کی خواہش کا اظہار کردیا حالیہ بلدیاتی انتخابات کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ پہلی بار مسترد ووٹوں کی تعداد ایک ملین سے تجاوز کرگئی جس کے بارے اندازہ ہے کہ یہ سب حکمران جماعت کے تھے جنھوں نے کسی اور جماعت کو ووٹ دینے کے بجائے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ووٹ خراب کرنا بہتر سمجھا ملک بھر میں اتنی بڑی تعداد میں ووٹ مسترد ہونا ترکیہ کی انتخابی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے۔

عام طورپر سیاستدان شکست تسلیم کرنے سے کتراتے اور جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر غیر سرکاری نتائج سامنے آتے ہی صدرایردوان نے چُھپنے یا جواز پیش کرنے کے بجائے حوصلے اور اعتماد سے کام لیا اپنی جماعت کے مرکزی دفتر میں گفتگو کرتے ہوئے ترک رائے عامہ کی مرضی کا احترام کرنے کی بات کی اور کہا کہ یہ درست ہے ہماری جماعت شکست سے دوچار ہوئی ہے مگر ترکیہ میں جمہوریت کوفتح ملی ہے جس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ کس نے اقتدار میں آنا ہے یا رخصت ہونا ہے اس کاکسی اورنے فیصلہ نہیںکرنا بلکہ یہ تعین بیلٹ باکس کے ذریعے ہو گایہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار کے ایوانوں سے فوج کو بے دخل کرنے میں ایردوان کا کلیدی کردار ہے لیکن عوام کو اُن کی پالیسیوں پر کافی تحفظات ہیں جن کی بناپر ایسی تبدیلی کے خواہشمند ہیں جس سے خرابیوں کا خاتمہ ہو۔

بلدیاتی انتخابات میں شکست کی وجوہات جاننے کی کوشش کی جائے تومسلسل اقتدار میں رہنا اور عام آدمی سے روابط میں جنم لینے والی خلیج ہے مہنگائی بھی ایک اہم وجہ ہے افراطِ زر کا احساس نہ کرنا ہے صرف چار برس میں ترکیہ کی صورتحال بہت خراب ہو ئی ہے لیرانہ صرف مسلسل اپنی قدر کھورہا ہے بلکہ آمدن کے ذرائع بھی کم ہو گئے ہیں چودہ لیرا میں ملنے والا پانی کا کنستر اب سولیراکا ہو گیا ہے اسی طرح چارلیرامیں دستیاب ڈالر اب تیس لیرا کا ہے ملک میںرہائشی سہولتوں میں کمی کے ساتھ کرایوں میں اضافہ الگ پریشان کُن ہے جو رہائش ایک ہزار لیرامیں آسانی سے مل جاتی تھی وہ اب دس ہزار لیرامیں بھی بمشکل ملتی ہے صرف چاربرس میں یہ حیران کُن تبدیلی کیونکر آئی ؟ ظاہر ہے اِس کی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں جن سے عام آدمی کے مسائل حل ہونے کے بجائے اضافہ ہوا جس کے اثرات بلدیاتی نتائج کی صورت میں ظاہر ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ بلدیاتی نتائج سے نہ صرف ایردوان کی سیاست ختم بلکہ حکمران آق جماعت کی بھی طویل عرصے کے لیے اقتدار سے بے دخلی کا امکان ہے۔

اِس میں شائبہ نہیں کہ ترکیہ کی سیاست نئی کروٹ لے چکی ہے جس کی وجہ سے دودہائیوں سے زائد عرصہ سے ملک پر برسرِ اقتدار جماعت آق غیر مقبول ہوئی اوراتاترک مصطفی کمال کی تشکیل دی جانے والی سیکولرجماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی دوبارہ مقبولیت کے زینے طے کرنے لگی ہے نو ماہ قبل کے صدارتی انتخاب میں جسے صرف 22 فیصدووٹ ملے تھے وہ موجودہ بلدیاتی انتخابات میں حیران کُن 37.74 فیصد ووٹ لیکر ملک کی سب سے بڑی ایسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے جس نے پندرہ بڑے شہروں ،اکیس صوبوں اور 339ضلع کونسلوں کے انتخابات جیت لیے ہیں اِس جماعت کے رہنما امام اولو 51.01 ووٹوں کی اکثریت سے استنبول جبکہ منصور یاوش دارالحکومت انقرہ سے 60.4 ووٹ لیکر میئر کا منصب حاصل کر چکے ہیں ترکیہ میں بلدیاتی اِدارے کیونکہ خاصے بااختیاراور خود مختار ہونے کے ساتھ آمدن کا اہم ذریعہ ہیں یہ صفائی ، فراہمی آب و گیس، شاہرات کی تعمیر و مرمت ،تفریحی سہولیات، ٹرانسپورٹ وغیرہ جیسی خدمات فراہم کرتے ہیں جس جماعت کی قیادت بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہو اُسے جلد ہی ملک کا اقتدار مل جاتا ہے صدر ایردوان بھی میئر سے صدر کے منصب تک پہنچے ریپبلکن پیپلز پارٹی نے ماضی میں وزیرِ اعظم بلند ایجودت کی سربراہی میں 1977کے انتخابات میں 41,38ووٹ لیے لیکن پھر غیر مقبول ہوتی گئی اور کبھی بائیس یا پچیس فیصد سے زیادہ ووٹ نہ لے سکی اسی لیے موجودہ بلدیاتی انتخابات میں روایت سے زیادہ پندرہ فیصد ووٹ حاصل کرنا ترکیہ کی سیاست کا اہم موڑ قرار دیا جارہا ہے دراصل کبھی یہ جماعت سیکولرازم کی علمبردار تھی لیکن ملکی مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ بھی اتا ترک یا عصمت انونو کے سیکولرازم نظریات کو خیربادکہہ چکی ہے اِس کے موجودہ رہنما اکرام امام اولو اور منصوریاوش دائیں بازو کی سیاست کرتے ہوئے اپنا اسلام پسند تشخص بنانے کی کوشش میں ہیں اِس لیے زیادہ وقت مساجد میں عبادت کرنے اور نمازیوں سے تعارف حاصل کرنے میں صرف کرتے ہیں اِس دوران ووٹ کی بھی درخواست بھی کرلیتے ہیں اِس کا یہ صلہ ملا ہے کہ نہ صرف جماعت کا اسلام پسند تشخص ہوگیاہے بلکہ حکمران جماعت کو بھی پچھاڑ کر رکھ دیا ہے اگر بلدیاتی اِداروں کی خدمات مزید بہتر کرنے میں یہ جماعت کامیاب ہو گئی تو ملک کی صدارت حاصل کرناکچھ زیادہ مشکل نہیں رہے گا۔

ایک طرف صدر ایردوان کی جماعت بلدیاتی انتخابات میں بُری طرح شکست سے دوچار ہوئی ہے تو مرحوم وزیرِ اعظم نجم الدین اربکان کے صاحبزادے علی فتح اربکان کی قیادت میں نورفاء نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 6.19 ووٹ لیکر نہ صرف سب کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی ہے اِسی لیے ترک سیاست کے نبض شناس متفق ہیں کہ نہ صرف اندرون ملک پالیسیوں کو تبدیل کرنا پڑے گا بلکہ ترکیہ کے عالمی کردار میں بھی تبدیلیاں ناگزیر ہوگئی ہیں سعادت پارٹی کے بعد نورفاء کی فعالیت کواسلام پسندوں کی مضبوطی تصور کیا جارہا ہے اورحکمران جماعت کی شکست کو غزہ پر ہونے والی اسرائیلی جارحیت پر ترکیہ کی گومگوپالیسی کا نتیجہ قرار دیا جارہاہے جس سے ایردوان تو غیر مقبول ہوئے ہی ہیں لیکن آق کی بطورجماعت مقبولیت بھی شدید متاثر ہوئی ہے جسے اب دوبارہ مقبول ہونے کے لیے کچھ نیا اور انوکھا کردار ادا کرنا پڑے گا جس سے شہریوں کے دوبارہ دل جیتے جا سکیں اتنا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ترکیہ سیاست کی کروٹ سے ملک کا عالمی کردار یکسر بدل سکتا ہے۔