خط کامیابی کا زینہ نہیں

پاک امریکہ تعلقات گزشتہ چند برس سے زیادہ خوشگوار نہیں رہے لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا بلکہ ماضی میں ایک سے زائد بار ہو چکا ہے جب بھی خطے میں کوئی انہونی ہوتی اور پاکستان کی ضرورت محسوس ہوتی تو دونوں ممالک سب کچھ بُھلا دیتے اور پھر پاکستان بھاری امداد کا حقدار قرار ہو جاتا مگر اب صورتحال بدل چکی ہے انہونی کابھی دوردورتک کوئی امکان نہیں رہا ماضی میں ضرورت کے وقت امریکہ دستِ تعاون بڑھاتا جسے پاکستانی قیادت بڑی بے چینی سے تھام لیتی اور پھر نوازشات ہونے لگتیں اقتصادی اور تجارتی فوائد حاصل کیے اور اربوں ڈالر کی دفاعی امداد بھی حاصل کی اِس دوران نہ صرف وفود کا آنا جانا لگا رہتا بلکہ ٹیلی فونک رابطہ بھی رہتا جب ضرورت ختم ہو جاتی تو باہمی تعلقات سرد مہری کا شکار ہو جاتے پاکستانی قیادت تو اب بھی چشم براہ ہے لیکن بدلے حالات کی وجہ سے امریکہ کے لیے اب پاکستان سے زیادہ بھارت اہم ہو گیا ہے کیونکہ امریکی ایماپرعملی طورپر نہ سہی زبانی کلامی چین کو للکارنے لگا ہے اسی لیے آجکل امریکی دلچسپی کا محورہے 2018 میں عمران خان نے جب وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالا تو وائٹ ہاؤس نے مبارکباد کا رسمی فون کرنا یا چند سطورپر مبنی خط بھیجنے کی بھی زحمت نہ کی جس سے وہ خاصے مایوس ہوئے اور امریکہ مخالف بیانیہ بنا لیا لیکن وزیرِ اعظم شہباز شریف کوخط لکھ کر امریکی صدر جو بائیڈن نے نہ صرف منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے بلکہ عالمی اور علاقائی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہنے کاعزم ظاہر کیا ہے اور دنیا کی سلامتی کے لیے پاک امریکہ شراکت داری کو اہم قرار دیا ہے مگر ایک خط کو دونوں ممالک میں تعلقات کی بحالی کے لیے سنگِ میل قرار دینا درست نہیں یہ سفارتی رکھ رکھاؤ ہے اسی لیے کامیابی کا زینہ نہیں کہہ سکتے۔

امریکی صدر جوبائیڈن کاخط پاکستان سے پہلا سفارتی رابطہ ہے جسے زیادہ طمانیت کا باعث نہیں کہہ سکتے کیونکہ کسی ملک سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے جاتے علاوہ ازیں اسرائیل کی غزہ پر جاری وحشیانہ بمباری کے تناظر میں آجکل امریکہ خاص طور پر مسلم ممالک سے رابطے میں ہے لیکن دوسرے ممالک کے دوروں یا ٹیلی فونک روابط کے تناظرمیں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی وزیرِ اعظم کو لکھا گیا خط تعلقات کی کم ترین سطح کا ایسا سفارتی پیغام ہے جس پر خوش ہونا خوش فہمی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ موجودہ حکومت پر امریکی اعتماد کا عکاس نہیں یہ تو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ دنیا کی واحد سُپر طاقت پاکستان کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر رہی ہے ایک خط پر خوش ہونا اور فوری طور پر جواب لکھ کر ذرائع ابلاغ پر تشہیر کرنا دانشمندی نہیں یہ رویہ پاکستانی قیادت کی بے چینی ظاہر کرتا ہے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی امریکی انتظامیہ کو اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اسی لیے واشنگٹن کی اسلام آباد سے متعلق پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا اور وہ مسلسل نظر انداز کرنے کی روش پر گامزن ہے۔

پاکستانی قیادت چین پر بُری طرح فریفتہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں چین نے بھارت سے زیادہ پاکستان پر اعتبارکیا ہے دونوں ممالک سرحدی تنازعات بھی گفت وشنید سے حل کر چکے۔ 1965 اور1971 کی پاک بھارت جنگوں میں چین نے پاکستان کی نہ صرف کُھل کر اخلاقی اور سفارتی مدد کی بلکہ عملی طورپر بھی ساتھ دیا جس پر پاکستانی حکومت اور عوام چین کو ایک سچا اور حقیقی خیرخواہ تصور کرتی ہے اب جبکہ امریکہ نظرانداز کر رہا ہے اِن حالات میں چین کا بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا پاکستان کی کمزور معاشی حالت کی وجہ سے فیاضی سمجھا جا رہا ہے مزیدبراں اقتصادی راہداری کے معاہدوں نے دونوں ممالک کو مزید قریب کر دیا ہے لیکن یہ سرمایہ کاری اورمعاہدے جتنے خوشنما اور فیاضانہ سمجھے جارہے ہیں ویسے ہیں نہیں اگر تجارتی اعدادوشمار پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو صورتحال بہت حیران کُن ہے مثال کے طورپر پاکستان کا چین کے ساتھ سالانہ تجارتی خسارہ دو سے اڑھائی ارب ڈالر کے درمیان ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے لیکن امریکہ جسے ہم شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں سے فائدہ ہے امریکہ کے ساتھ پاکستان کا تجارتی نفع پانچ ارب ڈالر کے قریب ہے اسی لیے ماہرین متفق ہیں کہ نئی منڈیاں تلاش کرنے تک امریکہ سے بگاڑمول لینا مناسب نہیں نیز ایک بڑی طاقت ہونے کے ناتے نہ صرف اُس سے تعلقات رکھنا مجبوری ہیں بلکہ پاکستان کے پاس زیادہ ترامریکی ساختہ ہتھیار اور اسلحہ ہے جن کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے بھی امریکی تکنیکی تعاون ناگزیرہے افسوس کہ حکومت کی اِس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ چین کوناراض کیے بغیر امریکہ سے وابستہ تجارتی مفادات کا تحفظ ناممکن ہرگز نہیں۔

عام انتخابات کے بعد معرضِ وجود میں آنے والی حکومت کی طرف دیکھتے ہیں تو معاشی یا خارجہ تعلقات کے حوالے سے ہنوز کوئی واضح یاٹھوس پالیسی نظر نہیں آتی شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ ا یوانوں میں اکثریت کے باوجودبظاہر کمزور ہے وفاقی کابینہ میں بھی یکجہتی کا فقدان ہے اسی لیے دوست ممالک سیاسی کے بجائے عسکری قیادت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اگر شہباز شریف بطور منتخب وزیراعظم اپنا تاثر بہتر نہیں بناتے تو سیاسی خسارے کا شکار ہو سکتے ہیں عزت و تکریم اور اہمیت سے محرومی منتخب حکومت کے لیے سودمند نہیں۔

امریکیوں کو بخوبی ادراک ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ پاکستان کی حکومت کا بھی چین پر انحصار ہے یہ جغرافیائی حالات کا تقاضا ہے اِس کے باوجود امریکہ کو سخت ناپسند ہے لیکن جس طرح ایران سے گیس درآمد معاہدے پر عملدرآمد کو دباؤ کے ذریعے رکوا دیا گیا چین کے حوالے سے پاکستان پر ایسا کوئی دباؤ آتا ہے تو صورتحال یکسر مختلف ہوسکتی ہے ایسے اندازے باہمی تعلقات میں زوال کی بڑی وجہ ہیں سیاسی لحاظ سے ایک طاقتور وفاقی حکومت ہی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لاسکتی ہے بھارت کی وجہ سے پاکستان میں چین سرمایہ کاری بڑھا کر اسلام آبادکی مجبوری بنتا جا رہا ہے اس دوران حکومت چین کی تمام تر ناروا شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے امریکی صدر کا خط موجودہ حکومت کی کامیابی نہیں لیکن حکومت ایسا ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے یہ بیانیہ تب تک عوام میں پذیرائی حاصل نہیں کر سکتا جب تک امریکی امداد بحال اور دنوں ممالک میں اعتماد سازی کی فضا قائم نہیں ہو جاتی جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اسی لیے کامیابی کا تاثر دینا حقائق کی نفی کے مترادف ہے۔

صدر جو بائیڈن نے اپنے خط میں پاکستان سے تعلیم، صحت اور اقتصادی ترقی میں تعاون کا عندیہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے مذکورہ شعبوں میں تعلقات کو قائم رکھا جائے گا سفارتی آداب میں کڑوی کسیلی بات بھی نرم ترین الفاظ میں بیان کی جاتی ہے صدر کا خط بھی سفارتی آداب میں لپٹا ایسا پیغام ہے جس کے الفاظ سے کچھ پوشیدہ نہیں رہا مقامِ اطمینان یہ ہے کہ حکومتی سرمہری کے باوجود پاکستان کی امریکہ کو برآمدات میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو رہا ہے پاکستان اگر امریکہ سے تعلقات میں مزید رکاوٹیں نہ آنے دے اور موجودہ تجارتی حجم قائم رکھے تویہ معاشی حوالے سے ملک کے لیے بہتر ہو گا کیا کوئی اِس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ امریکہ اور اُس کے دوست ممالک سے پاکستان کو ہر برس محتاط اندازے کے مطابق اٹھائیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ترسیلات زر ہوتی ہیں لیکن چین یا اُس کے کسی حامی ملک کا ایسی رقوم میں کوئی حصہ نہیں اسی لیے فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ زیادہ جذباتی ہونے کے بجائے ہمیں تجارتی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے چین کی بھی تو ایسی ہی پالیسی ہے وہ ایک طرف بھارت سے تجارت بڑھا رہا ہے تو تائیوان سے اختلافی امور کو بھی تجارت پر حاوی نہیں ہونے دے رہا پاکستانی قیادت بھی اگر خوش فہمیوں سے نکل کر حکمت و تدبر سے کام لے تو ذرائع آمدن بڑھائے جا سکتے اور ملک کو معاشی طور پر مستحکم بنایا جا سکتا ہے ایک خط تب تک کامیابی کا زینہ نہیں بن سکتا جب تک عملی طورپر کوشش نہ کی جائے لیکن حکومتی ترجیحات سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔