جمعیت العلمائے اسلام کے امیر محترم، مولانا فضل الرحمن کی چوکھٹ کو بوسہ دینے، مجلس وحدت المسلمین کے علامہ ناصر عباس کی بارگاہ عالی میں کورنش بجا لانے، رابطہ جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی کے آستانہئِ عالیہ پر جبّہ سائی کرنے اور تحریک انصاف (نظریاتی) کے اختر ڈار کی قدم بوسی کرنے کے بعد ”چہرہ تلاشی“ کے لیے ماری ماری پھرتی پی ٹی آئی سُنّی اتحاد کونسل کے حجرہئِ مُشکبار میں پہنچی اور حضرت صاحبزادہ حامد رضا مدظلہ العالی کے دستِ مبارک پہ بَیعَت کر لی۔ نام اور چہرہ پاتے ہی وہ بے نقاب و بے حجاب ہو کر پازیب چھنکاتی عمران خان کے دیرینہ ”دوست“ محمود خان اچکزئی کے دربار میں حاضر ہوئی اور اپنی برسوں کی ’انا‘ طرحدار پٹھان کے قدموں میں رکھتے ہوئے اُسے اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ اب جبکہ محفوظ پناہ گاہ تصوّر ہونے والی پشاورہائی کورٹ کے پانچ جج صاحبان نے متفقہ طور پر قرار دیا ہے کہ صفر جمع صفر کا نتیجہ صفر ہی ہوتا ہے تو پارٹی کے اندر ’جُوتم پَیزار‘ شروع ہو گئی ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ سُنّی اتحاد کونسل کے ساتھ عقدِ مصلحت (Marriage of Convenience) بانجھ ثابت ہونے کے باعث پی ٹی آئی خلع حاصل کرنے کی سبیل ڈھونڈ رہی ہے۔ قانون کے مفتیوں کا فتویٰ ہے کہ اب یہ ممکن نہیں رہا۔استاد ابراہیم ذوق نے کہا تھا
ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بدقمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بُری چَلے
اچھی خاصی عوامی تائید و حمایت رکھنے والی جماعت صحرا کا بگولہ کیوں بن گئی ہے؟ صرف عمران خان نامی حکمت کار کی وجہ سے جس کی ضد، ہٹ دھرمی، انا، نرگسیت، بے ہنری اور کم دانشی نے آکاش بیل کی طرح اپنی ہری بھری جماعت کو شجرِ بے برگ و ثمر بنا ڈالا۔ آج عالم یہ ہے کہ 336 ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی میں صرف دو ارکان ہیں جو سُنّی اتحاد کونسل میں ضم ہونے کے بجائے تحریک انصاف سے وابستہ آزاد ارکان کا تشخص اپنائے ہوئے ہیں۔ ایک بیرسٹر گوہر اور دوسرے عمر ایوب۔ یہ بھی عہدِ وفا نباہنے کے لیے نہیں، محض پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے۔ اس کے 293 وابستگان پرائے گھر سدھار چکے ہیں۔
ایسا کیوں ہوا؟ پی ٹی آئی کا بحرِ بے کراں، سُنّی اتحاد کونسل کے مقدس قطرہئِ شبنم میں ضم ہونے کے بعد بھی حقیر و بے توقیر کیوں ٹھہرا؟ مخصوص نشستوں کے لیے، سارے جَگ کی رسوائیاں مول لینے کے باوجود اُس کی گود کیوں ہری نہ ہوئی؟ صرف اس لیے کہ پی ٹی آئی خود اپنے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔ پراپیگنڈے کے ہُنر میں طاق اور مشّاق قبیلے نے اپنی پہاڑ جتنی بڑی غلطی، کوتاہی اور غفلت کو پیچھے دھکیل کر مظلومیت کا سیاپا شروع کر رکھا ہے لیکن صاف، شفاف اور کھرا سچ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی بار بار کی یاد دہانیوں کو گھاس کے تنکے جتنی اہمیت بھی نہ دی اور ڈھٹائی کے ساتھ سرکشی کے بے مہار راستے پہ بگٹٹ دوڑتی چلی گئی صرف اس زعم میں کہ ”صداقت و امانت“ کی سند عطا کرنے اور ”گُڈ ٹو سی یو“ کہتے ہوئے استقبال کرنے والے صاحبان عدل ہمارے ساتھ ہیں تو الیکشن کمیشن کیا کر لے گا؟۔
پی ٹی آئی نے آخری انٹرا پارٹی الیکشن 13 جون 2016 کو کرائے تھے۔ پانچ برس بعد لازم تھا کہ وہ 13 جون 2021 سے پہلے پہلے داخلی انتخابات کرا دے۔ اُس نے ایسا نہ کیا۔ الیکشن کمیشن نے پارٹی کو تحریری طور پر توجہ دلائی کہ وہ الیکشن ایکٹ 2017 کا قانونی تقاضا پورا کرے۔ پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ کرونا کی وجہ سے انتخابات نہیں کرائے جا سکے۔ براہِ کرم ایک سال کی مہلت دے دی جائے۔ الیکشن کمیشن نے کسی تردّد کے بغیر 13 جون 2022 تک مہلت دے دی۔ جب گیارہ ماہ بعد، مئی 2022 تک انتخابات نہ کرائے گئے تو الیکشن کمشن نے دوسری بار، اس تنبیہہ کے ساتھ قانونی تقاضے کی طرف توجہ دلائی کہ مزید توسیع نہیں دی جائے گی۔ اس پر یہ کرتب کاری کی گئی کہ پی ٹی آئی کا آئین ہی بدل دیا گیا اور 8 جون کو بے سروپا انتخابات کا ڈرامہ رچا کر اپنے تئیں قانونی ضرورت پوری کر دی گئی۔ کمیشن نے پارٹی کی طرف سے جمع کرائے کاغذ کو الیکشن ایکٹ کے مطابق باضابطہ سرٹیفکیٹ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک بار پھر طریقہئِ کار کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے کہا۔ پی ٹی آئی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
تنگ آ کر 8 فروری کے عام انتخابات سے چھ ماہ قبل، یکم اگست 2023 کو الیکشن کمیشن نے دو ٹوک اور واضح طور پر پی ٹی آئی کو متوجہ کیا کہ وہ فوری طور پر انٹرا پارٹی الیکشنز کرائے بصورت دیگر نتائج کے لیے تیار رہے۔ کمیشن نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 208، 209 اور 215 کے تحت، مقررہ طریقِ کار کے مطابق داخلی انتخابات ضروری ہیں۔ کمیشن نے مزید کہا
”Failing which the commission under section 215(5) of the Election Act 2017, may declare your Party ineligible to obtain election symbol for future election.“
(اگر آپ انٹرا پارٹی الیکشنز کرانے میں ناکام رہتے ہیں تو الیکشن کمیشن، الیکشن ایکٹ2017 کے آرٹیکل 215 (5) کے تحت آئندہ انتخابات کے لیے آپ کی پارٹی کو انتخابی نشان کے حق سے محروم کر سکتا ہے۔)
عام انتخابات سے چھ ماہ چھ دِن قبل، 2 اگست 2023 کو انگریزی روزنامے ”دی نیوز“ میں معروف رپورٹر نوشین یوسف کی ایک سٹوری جلی حروف میں اس سرخی کے ساتھ شائع ہوئی ”PTI may be deprived of election symbol“ (پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہو سکتی ہے)
اس کا بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ انتخابات سے کوئی ڈیڑھ ماہ قبل الیکشن کمیشن نے 23 نومبر 2023 کو ایک اور نوٹس جاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے کہا کہ وہ ضابطے کے مطابق بیس دن کے اندر اندر انتخابات کرائے ورنہ انتخابی نشان کی حق دار نہیں رہے گی۔ پنجابی محاورے کے مطابق ناک سے بہتا نزلہ منہ تک آ گیا تو پشاور سے چند کلومیٹر دور چمکنی نامی قصبے کے گم نام سے نواحی گاؤں میں انتخابات کے نام پر ایک منڈلی جمی جس کا منظر پوری قوم نے دیکھا۔ لاکھوں ارکان کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے داخلی انتخابات میں دو دَرجن افراد بھی شریک نہ ہوئے۔ تمام عہدیداروں کو بلامقابلہ منتخب قرار دے کر ”سرٹیفکیٹ“ جمع کرا دیا گیا جسے بانی رُکن اکبر ایس بابر اور دیگر پارٹی راہنماؤں نے چیلنج کر دیا۔ الیکشن نامعتبر ٹھہرے۔ انتخابی نشان چھن گیا۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ آج پی ٹی آئی اپنی اجڑی مانگ میں راکھ ڈالے بیوگی کا ماتم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی اڑھائی برس پر محیط کوششوں کا کوئی ذکر نہیں کرتی نہ ہی اتنے طویل عرصے میں قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابات نہ کرا سکنے کا کوئی جواز پیش کرتی ہے۔ واحد دلیل یہ کہ دوسری جماعتیں بھی یہی کچھ کرتی ہیں۔ یہ بھی غلط بیانی ہے۔ دوسری جماعتیں مکمل طور پر اپنے آئین کی پاسداری کرتی ہیں۔کسی نے کرونا کا بہانہ نہیں کیا اور کسی کے انتخابات چیلنج نہیں ہوئے۔ وکلا سے چھلکتی جماعت فقط اداروں کوسے جا رہی ہے، کوسے جا رہی ہے کہ یہی اُس کا ہُنر ہے۔ پی ٹی آئی نے قانون کی ابجد سے ناآشنا گروہ کی طرح مخصوص نشستوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے جس طرح سرکس لگایا، اس کا ذکر پھر سہی۔
شیر افضل مروت کا کہنا ہے ”ہماری دو غلطیوں نے ہمیں مخصوص سیٹوں سے محروم کر دیا۔ ہم ایسا کرنے والوں کا پتہ چلا رہے ہیں۔“ دو غلطیوں کا ارتکاب کرنے والوں کا پتہ ضرور چلائیں لیکن کیا 9 مئی سمیت، برسوں اپنی جماعت کو غلطیوں کے کولہو میں پیلنے اور اُسے سیٹوں ہی نہیں، نام و نشان تک سے محروم کر دینے والا مردِ ہُنر کار بھی کسی سے ڈھکا چھپا ہے؟