وطن عزیز کے ’’دانشور‘‘ دانشور کم اور نجومی زیادہ لگنے لگ گئے، جو بہت بڑا چڑیا باز ہے وہ درفنطنی چھوڑے گا کہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے اور بانی پی ٹی آئی باہر آ رہے ہیں، ایک بڑی سنجیدگی سے اظہار کرے گا۔ اپنے کالم میں کہ سابق وزیراعظم گریٹ بھٹو کی طرح عمران کو بھی غلط فہمی تھی کہ اس کی کرسی بڑی مضبوط ہے۔ اگر وہ ویڈیو دوبارہ سن لیں مجھے تو یاد ہے گریٹ بھٹو نے کہا ’’میں کمزور ہوں، میں کمزور ہو سکتا ہوں مگر یہ کرسی مضبوط ہے‘‘۔ ان کا لازمی کہنا یہ تھا کہ آئین اور قانون کی حکمرانی اس کو مضبوط رکھتی ہے مگر جب غیر آئینی اقدام سے وہ کرسی ضیا نے چھین لی تو پھر گیارہ سال بتایا کہ کرسی کیا ہے؟ غیرقانونی پھانسیاں، کوڑے، قیدیں اور جلاوطنیاں ہوئیں۔ اب آگے چلتے جب عمران کے پاس کرسی آئی تو اس نے تقریباً ساری اپوزیشن کو جیل میں ڈال دیا اور تمسخر اڑایا۔ اب عمران کی کرسی تو 2011 سے تیار ہوئی، 2018 میں ریاستی اداروں نے اپنے سر الزام لے کر اس کو تمام منفی حربے ستعمال کر کے کرسی پر بٹھایا۔ عمران کے پیچھے عوامی قوت نہ تھی جبکہ گریٹ بھٹو کے ساتھ 45 سال بعد بھی آئینی اور عوامی قوت ہے جو زرداری صاحب دوسری بار صدر بنے ہیں۔ خدارا، موازنہ کرنا ہو تو عمران کا موازنہ ضیا سے کریں، غلام محمد سے کریں۔ ایک اور ہیں دانشور ہیں ’’ساڈے بولن تے پابندیاں‘‘ وہ کہتے ہیں کہ طاقت ہار جاتی ہے اور سیاست تو صرف عمران کر رہا ہے۔ ذرا بتا سکتے ہیں کہ عمران کا بیانیہ کیا ہے؟ میاں نوازشریف کے دور میں انہوں نے لکھا تھا ’’گیم از اوور‘‘ وہ سب کیا تھا؟ بہرحال بانی پی ٹی آئی ایک بیانیہ فروش آدمی ہے اور آگے بانی پی ٹی آئی فروش اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اس کے بیانیے کو سیاسی بیانیہ قرار دے رہے ہیں۔ جھوٹ، ملک دشمنی، الزام، دشنام اگر بیانیہ ہے تو لعنت ہے ایسے بیانیے پر۔ ایک اور پاپولسٹ ’’دانشور‘‘ ہیں جو ظلم کی حکومت اور جبر کی حکومت کا بیانیہ بیچ رہے ہیں۔ کیا ایوب، ضیا، یحییٰ، مشرف اور خود عمران کی حکومتیں ظلم کی حکومتیں نہ تھیں جو 11، 10، 3، 9، 4 سال رہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 11 سالہ جدو جہد کے بعد بننے والی حکومت کیا ظلم کی حکومت تھی جو 20 ماہ بھی نہ چلنے دی گئی؟ مفاہمت اور سیاسی معاہدے کو ہنی مون کا نام دینا کیا ہمارے دانشوروں کے پاس بھی موزوں الفاظ کا کال پڑ گیا ہے؟ شاہ حسین کے کلام کو بیانیہ فروش کے ساتھ منسوب کرنا یہ سب کیا ہے؟ کیا کوئی ’’دانشور‘‘ بتا سکتا ہے جتنے ووٹ بتائے گئے اتنے لوگ سڑکوں اور الیکشن بوتھوں پر بھی تھے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جو سیٹیں جماعتوں کو ملی ہیں یہ تین ماہ پہلے لوگوں کے علم میں تھیں؟ اگر 75، 54 سیٹیں دلائی گئی ہیں تو 92 سیٹیں بھی فتنہ والوں کو دی گئی تھیں کہ ان کو ٹھنڈ پڑ جائے انتخابات میں اگر کسی کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے تو وہ میاں نوازشریف ہے۔ آج نہیں تو کل یہ انہونی سب کے قلم اور زبان پر ہو گی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ محترمہ مریم نواز کی چند دن کی حکومت عمران کے وسیم پلس بزدار کے چار سال سے مثبت لحاظ سے کہیں بہتر ہے۔ مگر ان کو چلنے نہیں دیا جائے گا اس میں مداخلت ضرور ہو گی۔ اگر عمران کا بیانیہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت نہ کرے مگر بات بھی اسٹیبلشمنٹ سے کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں سے بات نہیں کرنا چاہتے، بات نہیں ہو گی تو سیاست کیسے ہو گی دراصل عمران کی سیاست کا مینار نفرت پر کھڑا ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں اس کی حمایت لینے کے لیے سیاست کر رہے ہیں۔ گریٹ بھٹو تو بین الاقوامی سیاست کی وجہ سے نظریہ کی خاطر، عوام کی خاطر ایک باوقار سیاست اور تاریخ میں بقا کی خاطر جیل اور پھر پھانسی گھاٹ پر گئے جبکہ عمران مقبول تھے نہ ہی کوئی نظریہ رکھتے ہیں سوائے اقتدار کے اور جیل میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں اس لیے جیل میں ہیں۔ علیمہ خان ادھورا سچ بولتی ہیں کہ عمران اگر بولنا بند نہیں کریں گے تو باہر نہیں آئیں گے۔ پورا سچ یہ ہے کہ جھوٹ بولنا بند نہیں کریں گے تو باہر نہیں آئیں گے کیونکہ مقدمات سے سچ کی بنیاد پر بری ہوا جاتا ہے۔ ان کے حمایتی کیا ان کی گارنٹی دیتے ہیں کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔ یہ یو ٹیوبر، دانشور، صرف ریٹنگ کے لیے عمران نیازی کے جھوٹ اور فیک نیوز کو آگے بڑھاتے ہیں کیونکہ فیس بک، یوٹیوب، ایکس سب یہودیوں اور اس کے بعد بھارتیوں کے قبضہ میں ہے ہزاروں بندے تو بھارت میں اس کو پروموٹ کرتے ہیں۔ یہ صرف ریٹنگ کے لیے عمران نیازی کو پروموٹ کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو بلوچستان اور بلوچ لوگوں کی بہت فکر ہے وہ کے پی کے کی فکر کریں جو اس وقت پاکستان مخالف لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہو چکا ہے۔ یہ بیانیہ فروش سیاسی لیڈر کا بیانیہ آگے فروخت نہ کریں، وطن عزیز کی بقا کو مدنظر رکھیں۔ آج سمگلنگ، ڈالر اور کھانے پینے کی چیزوں پر کون قابض ہے۔ ذرائع کے بغیر کوئی تجزیہ کار نہیں اور ذرائع کون ہیں سب کو معلوم ہے۔ سیاست دانوں کی توجہ، کوشش، دوڑ کہیں اور ہوا کرتی ہے۔ عوامی مسائل حل کرنے سے پہلے وہ خود مسائل کا شکار ہو جایا کرتے ہیں اور مسائل ہیں کہ کاش ’’ساڈی گل ہو جائے‘‘۔ افسوس اس جدو جہد، جمہوریت اور ساری جمہوری روایات پر جن میں زمین آسمان کے ایک کر کے وائسرائے کے اختیارات بھی نہیں ملتے۔ لڈو کا کھیل ہے کبھی سانپ کے ڈنگ پر اور کبھی سیڑھی پر کبھی جیل میں اور کبھی اقتدار کی بگھی پر… Ownership لینے والا کوئی نہیں اور نہ ہی کوئی لے گا کیونکہ دستانوں کے اوپر بھی دستانے ہیں لہٰذا کوئی بیانیہ عوامی بیانیہ نہیں، بیانیہ فروش اور آگے بیانیہ ساز فروش ہیں۔