ریکارڈ ٹوٹنے کا عمل اور بالاج ٹیپو کا قتل

آج بھی سپیکر قومی اسمبلی نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ایک معزز ممبر نے پارلیمان میں سگریٹ پی کر تقدس پامال کیا؟ یہ وہ ہستی ہیں جن کی خواہش ہے کہ ان کے نام سے پہلے ”معزز“ کا لاحقہ نہ لگایا جائے تو بہتر ہے…… ان کی گفتگو عوامی پلیٹ فارم پر ہو…… گلی محلے میں ہو یا معزز لوگوں کے درمیان ہو…… ان کو مزہ لینے کا موقع ملتا ہے اور آپ کو فلم ”تیرا نام جوکر“…… یاد آتی ہے جی آپ نے کیا کہا میں نے فلم کا نام غلط لکھ دیا……؟ اوہ سوری…… اصل میں، میں نے بھارت کی اس فلم کا ذکر نہیں کیا جس میں جوکر کی اذیت والی زندگی اور مجبوریاں دکھائی گئی ہیں …… میری مراد ”میرانام جوکر“ سے ہے لیکن جس فلم کا میں نے ذکر کی وہ تو آئندہ آنے والے سالوں میں بنے گی اس کانام ہو گا ”تیرا نام جوکر“ اس کا مین کردار کسی سیاسی پارٹی کا لیڈر ہوگا جس کے اردگرد دس بارہ جوکر دکھائے جائیں گے جنہوں نے اس جوکر کو کبھی بھی سوچنے سمجھنے یا غور کرنے نہیں دیا کہ تم ایک معزز انسان ہو…… اور ہم جیسے احباب کی وجہ سے جوکر بنتے اور جوکر کا کردار ادا کرتے چلے جا رہے ہو……؟۔
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہماری سیاسی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ ہم لوگ تو خیر ”انجوائے“ کرتے ہیں …… پبلک بھی اسے عام طور پر تفریح طبع کا سامان سمجھ کر خوش ہوتی ہے لیکن جو لوگ نظر رکھے ہوئے ہیں یعنی صاحبان نظر…… وہ پریشان ہوتے ہیں کہ یہ کیسا ملک ہے کہ اس پر جوکر بھی مسلط ہو جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں …… دوسری طرف غیرت کے نام پر سب سے زیادہ قتل صوبہ خیبرپختونخوا میں ہو چکے لیکن دوسری طرف پاکستان کی اس اسمبلی میں ایک ممبر کی اسمبلی میں ہی بولی لگائی گئی اور اس کے جسم کانام لے لے کر آوازے کسے گئے…… شکر ہے اللہ پاک کا کہ آج سینٹ میں اِک معزز خاتون رکن نے اس بات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور اقتدار کے نشے میں مست معززین کو یاد دلایا کہ عورت کی 8 مارچ کو ہی نہیں سال کے 365 دن عزت کرنا ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ہر گھر میں بطور ”ماں“ تو موجود ہوتی ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”ماں کے قدموں تلے جنت ہے“ کاش معزز خواتین اور ادارے اس اسمبلی میں ہونے والے عمل کا نوٹس لیتے؟۔
ادھر لاہور میں ایک افسوسناک واقعہ یعنی امیر بالاج کے قتل کے بعد پولیس اور متعلقہ اداروں کے علاوہ سوشل میڈیا بڑا ہی ایکٹو نظر آیا…… جس کا صحافت سے دور کا بھی تعلق نہیں وہ بھی رپورٹنگ کرنے لگا۔ ہر اک نے جو خبر چاہے ادھوری ملی، اسے اپنی مرضی سے نمک مرچ لگا کر سوشل میڈیا کی زینت بنا ڈالا اور خوب داد سمیٹی حالانکہ قتل جیسے معاملات میں ایسی رپورٹنگ کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی…… لیکن آج ایک ایس پی نے کہا کہ سوشل میڈیا شطر بے مہار چلتا جارہا ہے…… ایک ملزم احسن شاہ کی ٹِنڈ کے حوالے سے بہت زیادہ لکھا گیا بولا گیا…… گویا یہ نکتہ بھی پولیس کے اختیارات سے تجاوز کے حوالے سے دیکھا گیا جبکہ ایس پی صاحب نے وضاحت کی کہ پولیس کو نہ توکسی ایسے عمل کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی متعلقہ ملزم کے ساتھ ایسا کچھ ہواتھا۔
ہاں البتہ سوشل میڈیا کے اس عمل سے یہ بات تو سامنے آئی کہ پنجاب میں خاص طور پر ”ڈان“ گینگسٹرز کی کارروائیاں حیرت انگیز طور بے لگام گھوڑے کی طرح تباہی مچا رہی ہیں اور محض اپنی اپنی چودھراہٹ کے چکر میں یہ ”ڈان“ انسانوں کا قتل عام کرتے چلے جا رہے ہیں …… بالاج قتل کیس کو پندرہ دن ہو چکے ہیں لیکن پولیس ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائی یا شاید پولیس بھی کسی پریشر کی زد میں ہے کیونکہ اس خوفناک قتل کی کوئی رپورٹ ابھی تک سامنے نہیں آئی لوگ اس تیس سالہ نوجوان کے قتل پر پریشان بھی ہیں اور جاننا بھی چاہتے ہیں کہ اس خاندان کو تباہ کرنے والے کون ہیں کس قدر بااثر ہیں اور کیااصلی قاتل پولیس کی گرفت میں آ سکیں گے؟ نئی حکومت کے لئے یہ ایک امتحان سے کم نہیں؟۔