فائیو سٹار تھانے اور سٹارلیس پولیس

اچھی فلموں کے شائقین الفرڈ ہچکاک کے نام سے ضرور واقف ہوں گے، وہ برطانوی شہری اور فلم ڈائریکٹر تھے، پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں نے ان کا ایک قول پڑھا تھا، میں پولیس کے خلاف نہیں مگر اس سے خوفزدہ رہتا ہوں،اس وقت مجھے لگا تھا کہ وہ شائد پاکستانی ہیں کیونکہ پاکستان کے عوام ہی ہیں جو پولیس کے خلاف تو نہیں لیکن اس کے پاس جاتے ہوئے ڈرتے ہیں، مجھے اس وقت یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ دنیا کے اس عظیم فلم ڈائریکٹر اور پاکستانی عوام کے ذہن کتنے ملتے ہیں۔ پولیس کے لفظی معنی ایسے ادارے، محکمے یا اس کے افسران کے ہیں جنہیں قانون نافذ کرنے اور لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کے لیے ریاست نے اختیارات دے رکھے ہوں، ہمارے ملک کی پولیس کو بھی اس حوالے سے اختیارات حاصل ہیں جو پولیس نے خود ہی لا محدود بنا لئے ہیں اور اب یہ اختیارات عوام کے تحفظ کے لیے کم ہی استعمال ہوتے ہیں زیادہ تر تو انہیں ڈرانے اور دھمکا نے کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں ، لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں پولیس کا خوف اس قدر راسخ ہو چکا ہے کہ وہ ظلم سہہ جاتے ہیں، زیادتی برداشت کر لیتے ہیں لیکن انصاف کے حصول کے لیے پولیس کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اب تک جتنے بھی حکمران آئے تقریباً سبھی نے پولیس کا قبلہ درست کرنے کی کوشش کی، اس سلسلے میں پالیسیاں وضع کی گئیں، کچھ اقدامات بھی اٹھائے، کئی بار تنخواہیں بڑھائی گئیں ،متعدد بار مالی پیکجز بھی دیئے گئے لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات والا نکلتا رہا۔

ہمارا یہ بھی المیہ ہے کہ ہر حکمران کی خواہش رہی ہے کہ پولیس عوام کی بجائے صرف اسکی دوست اور تابعدار ہو ،قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی بجائے ان کی حکومت کو دوام بخشتی رہے، ہماراسابق نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی ان سب سے آگے نکل گئے، کہا جاتا ہے کہ پنجاب پولیس کے تمام بڑے افسران یا تو ان کے کلاس فیلو تھے یا دوست، اسی وجہ سے پچھلے ایک سال میں پولیس نے جو چاہا وہ کیا، جسکی خواہش کی وہ لے لیا ،فنڈز، مراعات، گاڑیاں، سہولتیں، کیمرے اور یہاں تک کہ تھانوں کو فائیو سٹار ہوٹلوں کی لابیاں بنا دیا گیا، مگر بنا سکے نہ بنایا گیا تو پولیس کا رویہ ،زبان اور کلچر بہتر نہ بنایا جا سکا، حالانکہ صرف ان چیزوں کو بہتر بنا لیں تو باقی معاملات خود بخود درست ہو سکتے ہیں۔

ہماری پولیس کے افسران اس بات کا اب تک فیصلہ نہیں کر سکے کہ پولیس سروس ہے یا فورس، ان دنوں جائزہ لیں تو اس کے افسر کم اور ٹک ٹاکر زیادہ لگتے ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ اب پولیس افسروں کا وقت جرائم کی بیخ کنی پر کم اور ٹپ ٹاپ ہو کے ویڈیو شوٹس بنانے اور اسے وائرل کرنے پر زیادہ صرف ہوتا ہے، مانا کہ سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہئے مگر صرف یہی کام ہی نہیں کرنا چاہئے، کسی زمانے میں اپنی کارکردگی بہتر دکھانے کے لئے پولیس کے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی ہوتا تھا کہ ایف آئی آرز کم سے کم درج کی جائیں، مگر اب کارکردگی کا معیار یہ ہے کس افسر نے سوشل میڈیا پر کتنی ویڈیو اپ لوڈ کی ہیں، پچھلے دنوں اضلاع کے ڈی پی اوز کی حالت یہ تھی کہ وہ کوئی ایسا سائل ڈھونڈ رہے ہوتے تھے جسے ہیومن ٹچ دے کر صاحب بہادر اورپولیس کو عوام دوست دکھایا جا سکے، کیونکہ انہیں اوپر سے ہدایات ہیں کہ ایسا کیا جائے، کاش یہ سب دکھانے اور دکھاوے کی بجائے عملی طور پر اس کا مظاہرہ کیا جائے تو لوگ پولیس کو سیلوٹ کرنے کے لئے بے تاب ہوا کریں گے۔

ایک پولیس افسر سے میری پولیس کے امیج کے متعلق بات ہو رہی تھی تو اس نے مجھ سے شکوہ کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ آپ ہم پر تو بہت تنقید کرتے ہیں مگر سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی دیکھا کریں، جب حکومتیں پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کریں گی تو رزلٹ ایسے ہی ملیں گے، جب تک ہمارے حکمران اپنا رویہ نہیں بدلیں گے پولیس کا چہرہ نہیں بدل سکتا، لوگوں کو ڈنڈے مارنا اور راتوں کو سیاسی مخالفین کو گھروں سے اٹھانے کے کام ہمارا مثبت چہرہ نہیں بننے دیتے، ہمارے ڈیوٹی کے کوئی اوقات کار ہی نہیں ہیں، اس افسر نے یہ بھی گلہ کیا کہ عدالتوں میں کیس لٹکتے رہتے ہیں اور ہمارے افسر کورٹ ڈیوٹیوں سے ہی فارغ نہیں ہوتے، اسی طرح پروٹوکول جان نہیں چھوڑتا، اس افسر کی باتیں ایک حد تک ضرور درست ہیں۔

اس افسر نے ہنستے ہوئے مجھے کہا کہ پچھلے دنوں الیکشن میں لیول پلئینگ فیلڈ کی بات ہوئی،ہمیں تو پولیس کے اندر لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملتی ،پچانوے فیصد پولیس جو دن رات کام کرتی ہے اس کا تعلق صوبائی سروس سے ہے مگر اسے محکمہ میں اونر شپ ، اعلیٰ عہدوں اور ترقی سے ہی محروم رکھا جاتا ہے، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ مجھے پنجاب میں کوئی ایک بھی ڈی آئی جی عہدے کا صوبائی افسر دکھا دیں تو میں آپ کو مان جاؤں ،یہ ایک ایسا پراگندہ سسٹم ہے جو صرف پنجاب میں رائج ہے، یہاں وفاقی پولیس سروس کا راج ہے، یہاں اعلیٰ عہدوں تک ترقی، بیرون ملک کورسز اور بہترین مراعات صرف ان تک ہی محدود ہیں۔ ہمیں وراثت میں اپنے وفاقی افسروں کی غلامی اور کام کرنا ہی ملا ہے تو پھر ہمارا رویہ اور کام بھی تو ایسا ہی ہو گا۔

اس افسر نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک پولیس کانسٹیبل مہذب طریقے سے برتاؤ کرے تو اسکی سلیکشن کا طریقہ کار بدلنا ہوگا، اس کا نفسیاتی امتحان بھی ہونا چاہئے، اس کی ٹریننگ کا معیار، کھانا پینا، گفتگو کا طریقہ کار بدلنے کے لئے کام کرنا ہو گا ،اسے اچھے پولیس مین کے ساتھ ساتھ اچھا انسان بھی بنانا ہو گا، تب جا کر ہی اس کا رویہ بہتر ہوگا اور پولیس کا امیج بھی اور اگر دکھانے کے لئے صرف تھانے ہی فائیو سٹار بنانے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، اس فائیو سٹار تھانے میں کام کرنے والے پولیس کانسٹیبل اور افسر کا رہن سہن اور پولیس لائن کا معیار بھی فائیو سٹار نہیں تو ون سٹار ہی کر دیں۔

میں اس پولیس افسر کی باتیں سن کر سوچ میں پڑ گیا ،گزشتہ ایک سال کے دوران پنجاب پولیس پر کوئی سیاسی پریشر، سفارشی دباؤ نہیں تھا۔انہیں فنڈز اور دوسرے معاملات میں بھی آزادی تھی مگر پھر بھی صرف تھانے اور پولیس کی عمارتیں ہی فائیو سٹار کیوں بنیں؟کیا ایک عام کانسٹیبل کا معیار زندگی، تربیت، اخلاق کیوں بہتر نہ ہو سکا؟ پنجاب پولیس میں پچانوے فیصد صوبائی افسر اور فورس کے گلے شکوے کیوں دور نہ ہو سکے؟ لاہور کی اچھرہ مارکیٹ میں ایک خاتون کو ہجوم سے نکالنے کا کریڈٹ صرف ایک اے ایس پی کو ملنا کیا انصاف ہے؟ کیا یہ کارنامہ اس اکیلی خاتون افسر نے انجام دیا ہے؟ مقامی تھانے کے ایس ایچ او اور دوسرے عملے کی مدد کے بغیر اگر خاتون افسر نے اکیلے یہ کارنامہ سر انجا دیا ہے اور باقی پولیس کی مدد اس میں شامل نہیں تو ان سب پولیس والوں کے خلاف بھی اعانت جرم کا پرچہ درج ہونا چاہئے۔