عذاب ضرور آئے گا

جن عمروں میں سب خواب سنہری ہوتے ہیں اسے بھرپور جوانی کا عالم کہا جاتا ہے۔ اٹھائیس برس عمر کا دراز قد خوبصورت نوجوان نپے تلے قدم بڑھاتا چلا جا رہا تھا، اس نے اپنے ویڈیو کلپ میں بتایا کہ وہ امریکی ایئر فورس میں آن ڈیوٹی ہے۔ اسکے ہاتھ میں ایک بوتل تھی، اسکے اندر کا کرب اسکے چہرے سے عیاں تھا۔ وہ واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے آ کر رکا، اس نے بوتل میں موجود پٹرول اپنے اوپر چھڑکا اور بتایا کہ وہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں شریک نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتا ہے پھر اُس نے اپنی جیب سے لائٹر نکالا اور اپنے آپ کو آگ لگا لی۔ آگ کے شعلے چشم زدن میں سر تک پہنچ گئے وہ جل رہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی بند ہونی چاہیے، دنیا کو چاہیے کہ وہ اس ظلم کا حصہ بننے کے بجائے اسے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ آگ بڑھتی گئی پھر اسکی آواز ان شعلوں میں گم ہو گئی وہ زمین پر گر پڑا اسکا جسم جل کر کوئلہ بن گیا۔ آپ تو جانتے ہیں پہلے جنم کا کوئلہ دوسرے جنم میں ہیرا بن جاتا ہے، بیش قیمت ہیرا جسے ایک دنیا ہاتھ اور گلے کے زیور میں جڑوا کر فخر سے پہنتی ہے۔ یہ خوبرو جوان بھی ہیرا تھا، وہ بندوق لے کر گھر سے نکلتا اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے بڑے مجرم امریکہ کے درجن بھر فوجیوں یا پولیس اہلکاروں کو شوٹ کر کے اپنے آپ کو گولی مار کر ختم کر سکتا تھا، اس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ جانتا تھا ایسا کرنے کے بعد اسے گرفتار کر کے ذہنی مریض قرار دے دیا جائے گا اور امریکہ اپنا مکروہ چہرہ ایک پاگل کے پاگل پن کے پیچھے چھپائے گا۔ وہ اپنے دوستوں عزیزوں رشتہ داروں کو ایک شام کھانے پر بلاتا، رات گئے تک ان کے ساتھ کھیلتا، گھر آ کر زہر پی لیتا اور اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا۔ اس نے یہ بھی نہیں کیا وہ جانتا تھا صبح کے اخبارات ایک چھوٹی سی خبر میں بس اتنا ذکر کریں گے کہ محبت میں ناکامی کے بعد ایک نوجوان نے زہر پی لیا۔ وہ جس کثیر المنزلہ عمارت میں رہائش پذیر تھا اس کی چھت سے کود کر بھی اپنی جان دے سکتا تھا۔ اس نے ایسا کرنا بھی مناسب نہ سمجھا وہ خوب جانتا تھا اسکے مرنے کے بعد کنٹرولڈ امریکی میڈیا علاقائی خبروں میں مختصر سی خبر نشر کرے گا جس میں بتایا جائے گا، کثرت مے نوشی کے بعد نشے کی حالت میں عمارت کی چھت سے گر کر ایک شخص بلاک ہو گیا اور بس۔ اسکے دوست عزیز رشتہ دار سب یہی سوچتے سب یہی کہتے کس قدر بے وقوف تھا وہ، مے نوشی کے بعد چھت پر کیوں گیا اور تاروں بھری رات دیکھنے کا اتنا ہی دلدادہ تھا تو اپنے آپ کو سنبھال کیوں نہ سکا۔ پس اس نے جو کیا بہت اچھا کیا وہ مرنے سے پہلے تمام ابہمام ختم کر گیا، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر گیا۔ امریکی فیصلہ سازوں انکے بغل بچوں کیلئے چلو بھر پانی میں ڈوب مرے کا مقام انکی دہلیز تک لے آیا۔ اس واقعے سے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور اسکے گماشتوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ ہیومن رائٹس کی بات کرنیوالی ضمیر فروش عورتوں کے گروہ گھروں میں دبکے ہوئے ہیں کوئی اسکی موت اور موت کی وجہ معلوم ہونے کے باوجود بات کرنے کو تیار نہیں کیونکہ باتیں دو ہی ہو سکتی ہیں، اول اس نوجوان امریکی نے مرنے سے پہلے اپنے آپ کو آگ لگانے سے پہلے جو کچھ کہا اسکی ہم نوائی کی جائے فلسطینیوں کو انکا ملک اور انکا حق فوراً دیا جائے۔ دوم، معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں پر تین حرف بھیجنے کا سلسلہ زیادہ شدت سے جاری رکھا جائے۔ دوہرے معیار رکھنے والی دنیا کے باسیوں کو دونوں باتیں منظور نہیں، اس لیے ہر طرف خاموشی ہے، عالم اسلام خاموش ہے اور انسانی حقوق کے تمام بڑے ٹھیکیدار بھی خاموش اور سب سے بڑے بے غیرت وہ ہیں جنہیں کہا جائے کہ امریکی اسرائیلی اور ان کے ہمنواؤں کی بنائی گئی چیزوں کا بائیکاٹ کر کے ان سے نفرت کا اظہار کرو تو جواب ملتا ہے ہم گلوبل ویلیج کا حصہ ہیں ایسا کیونکر کر سکتے ہیں، اس سے دنیا کی اکانومی میں بھونچال آئے گا۔ عقل کے اندھے یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ فلسطین سے مسلمانوں کے مکمل صفائے اور اس پر اسرائیلی قبضے کے بعد دنیا میں امن ہو جائیگا تو لکھ لیجئے ایسا نہیں ہو گا، اسکے بعد کسی اور اسلامی ملک کی باری آئے گی پھر اسکے بعد کسی اور کی اور پھر ایک روز ہماری باری آ جائے گی۔ ہم جو فلسطینیوں کو لہو میں غسل کرتے دیکھ کر کرکٹ کے ورلڈ کپ اور پی سی ایل دیکھنے میں مگن تھے۔ امدادی سامان کے چند ٹرک بھیج کر مطمئن تھے کہ ہم تھوڑا سا مال دے کر جہاد میں شریک ہو گئے اور جنت کی رجسٹری ہمارے نام ہو چکی ہے، کچھ عجب نہیں ہم ہی وہ ہوں جو جہنم کی آگ دہکانے کا ایندھن بنیں، ہمارے کرتوت اور سوچیں تو ایسی ہی ہیں۔

فلسطین میں غزہ اور رفاہ کے علاقے میں اسرائیلی دہشت گردی گذشتہ پانچ ماہ سے جاری ہے، فلسطینی مجاہدین کو سات مختلف محاذوں پر حملوں کا سامنا ہے۔ غزہ کا علاقہ مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، اسرائیلی اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اس ملبے کے ڈھیر پر بھی دن میں متعدد مرتبہ بمباری کرتے ہیں تا کہ اگر کوئی ملبے تلے زندہ ہے تو وہ بھی زندہ نہ رہے۔ فلسطینی خواتین اور کمسن بچے عمارتوں کے ملبے تلے اپنے پیاروں کو تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ اسرائیل طیاروں نے سکول ہسپتال پناہ گاہیں حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی کے دفاتر بھی بمباری سے تباہ کر دیئے ہیں۔ صرف رفاہ کے علاقے میں بیس لاکھ افراد کھلے آسمان تلے پڑے ہیں انہیں سرد ترین موسم میں خوراک، ادویات اور گرم کپڑوں کے علاوہ خیموں کی ضرورت ہے لیکن امدادی سامان ان تک پہنچنے کے تمام راستے مسدود ہیں۔ اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی فوج نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقے میں قبرستان پر بلڈوزر چلا کر قبروں کو ملیا میٹ کر دیا ہے، وہاں اب کسی قبر کا نشان باقی نہیں ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر یک طرفہ خبریں جاری کر رہے ہیں لیکن بے سر و سامانی کے عالم میں لڑنے والے مجاہدین کے ہاتھوں انہیں شدید جانی اور فوجی نقصان کا سامنا ہے امریکی حکومت نے اسرائیل کی مدد کرنے کیلئے دو مرتبہ کئی ارب ڈالر کی امداد کا بل منظور کیا ہے۔ مگر اسلامی ملکوں اور انکی حکومتوں کی طرف سے کسی طرح کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یمن کے حوثی گروپ کے ترجمان کے مطابق امریکا اور برطانیہ نے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے حدیدہ کے شمالی ضلع ال صالف پر فضائی حملے کیے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جنگ کے بعد غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ پیش کر دیا ہے، فلسطینی مسلمانوں پر ظلم عظیم ہوتے دیکھ کر خاموش رہنے والے کسی بھی عذاب کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ بیماری کی شکل میں آئے یا زمینی آفت بن کر آئے جلد یا بدیر آئے گا ضرور، انتظار کریں۔ بادشاہتیں بھی ختم ہو سکتی ہیں۔