ہونا ہے ایک روز یہ قصر وجود خاک

طوفانِ نوح کی تباہ کاریوں کے بعد ربِ کائنات نے سرزمینِ عرب پر ایک ایسی قوم پیدا فرمائی جو دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور، مضبوط و توانا افراد پر مشتمل تھی۔ جسمانی طاقت، سرخی مائل سفید رنگت اور ظاہری حسن میں اپنا کوئی ثانی نا رکھتے تھے۔ شان و شوکت، تہذیب و تمدن، دولت کی فراوانی سمیت ہر آسائش انہیں میسر تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’ان جیسی کوئی اور قوم اور ملکوں میں پیدا نہیں کی‘۔ قومِ عاد اپنی تعمیرات میں ستونوں کو خصوصی اہمیت دیتی تھی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’اور یاد تو کرو، جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد سردار بنایا اور تمہیں (زمین پر) خوب پھیلایا‘۔ زمین پر سب سے پہلے ستونوں پر بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کر نے کا طریقہ انہوں نے ہی شروع کیا۔ تندرست اور مضبوط قد آور جسامتیں، وافر خوراک، سرسبز و شاداب کھیت کھلیان، میٹھے پانی کی بل کھاتی نہریں، پھلوں اور پھولوں سے لدے باغات اور بے شمار نعمتوں کی فراوانی نے انہیں حق کے راستے سے بھٹکا دیا اور وہ لوگ بت پرست، بدکردار، بد اعمال اور اللہ تعالیٰ کے باغی ہو گئے۔ ان کی بد اعمالیاں جب انتہا کو پہنچ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ہودؑ کو ان لوگوں کی طرف ہدایت کا راستہ دکھانے کے لیے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہودؑ کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا تعارف اور اپنے نبی ہودؑ کی دعوتِ دین بیان کرتے ہوئے فرمایا: اور قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا کہ بھائیو خدا ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم ڈرتے نہیں۔ طوفان نوح ؑکے بعد قوم ِ عاد وہ پہلی قوم تھی، جو بتوں کی پجاری بنی۔ حضرت ہودؑ اپنی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپؑ کے پاس وحی آتی تو آپؑ اپنی قوم کے پاس آ کر سنا دیتے، اس وقت آپؑ کی قوم یہ جواب دیتی کہ تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آئو جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ بالآخر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہو گئیں، تین سال تک بارشیں ہی نہیں ہوئیں ہر سمت قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو گیا، یہاں تک کہ وہاں کے لوگ اناج کے دانے دانے کے لیے ترسنے لگے۔ حضرت ہودؑ انہیں راہ ِ راست پر لانے کے لیے مسلسل پچاس برس وعظ و نصیحت کرتے رہے، کبھی انہیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا احساس دلاتے، تو کبھی طوفانِ نوح کی ہولناکی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں عذابِ الٰہی سے ڈراتے۔ لیکن قوم عاد اپنے غرور و تکبر میں اندھے بہرے بنے رہے۔ وہ لوگ آپؑ کو جادوگر اور سحر زدہ شخص خیال کرتے جنہیں ان کے پتھر کے باطل خدائوں نے دیوانہ بنا دیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تا کہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد جانشین بنایا اور تمہاری جسامت میں قوت اور وسعت زیادہ کی تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو تاکہ تم فلاح پائو۔ حضرت ہودؑ نے انہیں ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ شرک سے پیچھے ہٹنے کے لیے راضی نا ہوئے۔ اس قوم کا بادشاہ شداد تھا، وہ ایک وسیع سلطنت کا حکمران تھا۔ حضرت ہودؑ نے اسے بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کے دل پر بھی مہر لگ چکی تھی۔ شداد نے حضرت ہودؑ سے پوچھا اگر میں ایمان لے آئوں تو مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ حضرت ہودؑ نے فرمایا حکومت و دولت ایک فانی چیز ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت تمہیں اُخروی نجات دے گی اور تم پر جنت حلال ہو جائے گی جو دنیا کی ہر دولت اور نعمت سے زیادہ بہتر اور قیمتی ہے، شداد نے پوچھا یہ جنت کیسی ہے؟ اس کی خوبی اور صفات بیان کرو۔ ہودؑ نے جنت کی تعریف، صفات اور نقشہ اور وہ سب اسے بتایا جو انبیاء کرام کی تعلیمات کے ذریعے ان کو معلوم تھا تو شداد نے کہا ایسی جنت کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں کون سی بڑی بات ہے میں بھی بالکل ایسی ہی جنت دنیا میں بھی بنا سکتا ہوں۔ حضرت ہودؑ نے اسے اس کفر اور شرک سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر شداد نے ان کی کسی بات کا اثر نہ لیا۔ شداد نے جنت بنانے کے لیے ملکِ شام میں ایک صحت افزا مقام کا انتخاب کیا اور اپنی سلطنت کے تمام بڑے اور ماہر معمار اکٹھے کیے اور ارم کے مقام پر بیس کوس لمبی اور بیس کوس چوڑی مضبوط اور مستحکم فصیل تعمیر کرائی۔ اس شہر کی بنیادیں اتنی گہری کھدوائیں کہ پانی کے بالکل قریب پہنچا دیں اور پھر ان کو سنگِ سلیمانی سے بھر کر زمین کے برابر کر دیا گیا۔ سونے، چاندی اور جواہرات جڑی اینٹوں کے استعمال سے جنت بنوانا شروع کر دی۔ اس میں شہد، دودھ اور میٹھے پانی کی نہریں بھی رواں کی گئیں جن میں سنگریزوں کی جگہ ہیرے و جواہرات بہتے تھے، دنیا جہاں کے خوبصورت پھول پودے لگائے گئے جن کی خوشبو میں مشک و عنبر بھرا تھا، جب ہوا سے ان کی ڈالیاں لہلاتیں تو مشک و عنبر کی خوشبو پورے شہر میں پھیل جاتی۔ شداد نے فصیل کے اندر بارہ ہزار محلات تعمیر کرائے، ہر محل کو یاقوت اور ہیرے جواہرات سے مزین کیا گیا، ہر ایک محل میں کئی حوض اور فوارے تعمیر کیے گئے، مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی اور شاخیں زمرد جڑی تھیں۔ جنت نما یہ شہر تقریباً تین سو سال میں مکمل ہوا۔ اس جنت کی تکمیل کے وقت شداد کی عمر نو سو برس کے قریب تھی۔ مصنوعی جنت کی تعمیر کے مکمل ہونے کی اطلاع ملتے ہی بہت بڑا لشکر لے کر شداد اس کی جانب روانہ ہو گیا۔ غرور و تکبر سے چلتے ہوئے جب وہ اس شہر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے وہاں ایک اجنبی شخص کو کھڑے دیکھا تو پوچھا کون ہو؟ اس نے کہا میں ملک الموت ہوں۔ پوچھا کیوں آئے ہو؟ اس نے کہا تمہاری جان لینے۔ شداد نے کہا مجھے اتنی مہلت تو دو کہ اپنی بنائی جنت کو دیکھ لوں۔ جواب ملا ’مجھ کو حکم نہیں‘۔ کہا چلو اتنی ہی فرصت دے دو کہ گھوڑے سے اتر آئوں۔ جواب ملا ’اس کی بھی اجازت نہیں‘ چنانچہ ابھی شداد کا ایک پائوں رکاب میں اور دوسرا زمین پر پہنچا ہی تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کر لی۔ اس کے لشکر نے ایک آسمانی چنگھاڑ سنی کہ اسی وقت شداد کی مصنوعی جنت اپنی تمام تر سجاوٹوں سمیت زمین میں سما گئی اور پورے کا پورا لشکر آن واحد میں ختم ہو گیا اور جنت کے بجائے ملکِ عدم میں پہنچ گیا۔ بقول شاعر:
کٹتے ہی ڈور سانس کی نام و نمود خاک
ہونا ہے ایک روز یہ قصرِ وجود خاک

ربِ دو جہاں نے قرآنِ کریم میں قوموں کی تباہی کے جو واقعات بیان فرمائے ان کا اصل مقصد یہی تھا کہ بنی آدم ان سے عبرت اور سبق حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کو طاقت و قوت، مال و دولت، شان و شوکت سمیت دنیا کی ہر نعمت عطا فرمائی لیکن جب انہوں نے نا فرمانی کی اور اللہ کے نبی کی بات ماننے سے بار بار انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نیست و نابود کر کے رکھ دیا۔