بنارس کی گیان واپی مسجد ان متعدد مساجد میں سے ایک ہے، جس پر ہندو اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے بعد ایسے معاملات کو بڑی تیزی سے ہوا دی جا رہی ہے۔ گیان واپی مسجد کی طرح ہی متھرا کی شاہی عید گاہ کے خلاف بھی ایسی ہی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے، جیسا کہ بابری مسجد کے خلاف کیا گیا تھا۔
بھارتی ریاست اتر پردیش میں الہ آباد ہائی کورٹ نے گیانواپی مسجد کے تہہ خانے میں کاشی وشواناتھ مندر ٹرسٹ کو پوجا کا حق دینے کے بنارس کے ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے انجمن انتظامیہ مساجد کی درخواست خارج کر دی ہے۔ ڈسٹرکٹ جج نے بنارس کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو جائیداد کا نگران مقرر کیا تھا اور 31 جنوری کے حکم میں گیانواپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دی تھی۔ جسٹس روہت رنجن اگروال نے ان احکامات کے خلاف مسلمانوں کی دونوں اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیس سے متعلق تمام دستاویزات کو دیکھنے کے بعد اور متعلقہ فریقوں کے دلائل پر غور کرنے کے بعد عدالت کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ وارانسی کو جائیداد کا نگران مقرر کرنے کے ڈسٹرکٹ جج بنارس کے 17جنوری کے اور مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دینے کے 31 جنوری کے حکم میں مداخلت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ نامہ نہاد فیصلہ میں کہا گیا 42 تہہ خانوں میں سے ایک ویاس تہہ خانہ میں پوجا جاری رکھی جائے۔ مسجد کمیٹی کے وکلاء نے کہا شیلندر کمار نے غلط بیانی کر کے مقامی عدالت سے اجازت نامہ لیا۔ سپریم کورٹ منسوخ کرے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد اگلے ہی روز بنارس کی تاریخی گیان واپی کی جامع مسجد میں ہندوؤں نے پوجا پاٹھ شروع کر دی اور نصف شب تک مسجد کے احاطے میں ہندوؤں نے اپنی مذہبی رسومات ادا کیں۔
بابری مسجد کی طرح ہی بنارس کی گیان واپی مسجد، جو دراصل گیان واپی کی جامع مسجد ہے، کے حوالے سے بھی ہندو تنظیموں کا یہ دعویٰ ہے کہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں یہ مسجد ان کے ایک مندر کو مسمار کر کے تعمیر کی گئی تھی۔ وہ اس مسجد کے مقام پر مندر تعمیر کرنے کی مہم کافی عرصے سے چلا رہے ہیں اور تنازع عدالت میں زیر سماعت بھی ہے۔مسلم فریق ہندوؤں کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے اور وہ اس کی لڑائی عدالت میں لڑ رہے ہیں، تاہم ابھی تک انہیں اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔
گیان واپی مسجد کے احاطے میں تہہ خانے کی جانب جو راستہ جاتا ہے، اسی کے داخلے پر دیوی نندی کا ایک بڑا مجسمہ نصب کیا گیا ہے مسجد کے تہہ خانے میں چار کمرے ہیں اور ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے ایک کمرہ ایک ہندو پروہت کے خاندان کے قبضے میں تھا، جو وہاں رہا کرتے تھے۔ عرضی گزار اور اس خاندان کے ایک رکن نے عدالت میں جو درخواست دی تھی، اس کے مطابق ویاس خاندان کے ایک رکن سومناتھ ویاس 1993 میں تہہ خانہ بند کرنے سے پہلے تک اس میں پوجا کیا کرتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ موروثی پجاری ہونے کے ناتے انہیں عمارت میں داخل ہونے اور وہاں عبادت کرنے کی اجازت دی جائے۔ مقامی عدالت نے اسی کیس کی سماعت کے بعد گزشتہ روز ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایک ہفتے کے اندر تہہ خانے کے اندر پوجا ادا کرنے انتظام کیا جائے۔
مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ بنارس کی مقامی عدالت کے حکم کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ ان کے ایک وکیل معراج الدین صدیقی کا کہنا ہے، ”یہ سب سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ وہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے، جو بابری مسجد کیس میں کیا گیا تھا“۔ ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد پر بھی ہندو فریق نے پہلے دعوی کیا تھا، پھر مسجد کے اندر مورتیاں رکھ دی گئیں اور پھر ایک مقامی عدالت نے بابری مسجد کے اندر ہندوؤں کو پوجا کرنے اجازت دے دی تھی۔ پھر ایک وقت وہ آیا جب مسجد کو منہدم کر دیا گیا اور عدالت نے مسجد کی جگہ مندر کے حوالے کر دی جہاں اب ایک شاندار رام مندر تعمیر ہو چکا ہے۔
برصغیر میں مغلیہ سلطنت نے شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں یہ مسجد 17ویں صدی میں ہندوؤں کے مقدس شہر وارانسی کے گیان واپی علاقے میں تعمیر کی تھی۔جس سے مسجد کا نام گیان واپی کی مسجد کے طورپر مشہور ہو گیا۔ اس شہر میں ملک بھر سے ہندو مذہب کے پیروکار اپنے پیاروں کی لاشوں کو دریائے گنگا کے کنارے جلانے یا ان کی استھیاں اس دریا میں بہانے کے لیے آتے ہیں۔ بھارت میں یہ مسجد ان متعدد اسلامی عبادت گاہوں میں سے ایک ہے، جنہیں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے حمایت یافتہ انتہا پسند کارکن دوبارہ سے ہندو عبادت گاہوں میں تبدیل کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے مہم چلا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی ہندو اکثریت کے مرہون منت ملکی سیاست میں سب سے غالب طاقت بن چکی ہے اور اس صورتحال سے سخت گیر ہندو عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ 2014 میں جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، اس کے بعد سے ملکی قانون میں ہندو بالادستی قائم کرنے کے مطالبات میں تیزی آئی ہے، جس سے بھارت میں بسنے والے 210 ملین مسلمانوں میں اپنے مستقبل کے بارے میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔