مولانا فضل الرحمن، کمشنر راولپنڈی اور طاقت کا مرکز

چاہتا تو یہ تھا کہ اپنے ساتھ ہونے والے سائبر کرائم بارے تحریر کروں جس میں نوسرباز برطانیہ میں مقیم میرا ایک طالبعلم بن کر مجھ سے دو لاکھ ہتھیا لے گئے ہیں۔ والدہ محترمہ کی وفات، لاہور کے مہنگے ہسپتال اور پھر سماجی رسم و رواج نے ابھی معاشی طور پر سنبھلنے نہیں دیا تھا کہ پاکستان بھر میں پھیلے فراڈیوں نے دبے پاﺅں میری فیس بک کو نقب لگائی اور جرم مکمل کر کے رخصت ہو گئے۔ میں نے درخواست سائبر کرائم ونگ کو دےدی ہے جنہوں نے پندرہ دن کے اندر بذریعہ ایس ایم ایس رابطے کی اطلاح دینے کا کہا ہے۔ ابھی اسی صدمے سے دو چار تھا کہ یکلخت مولانا فضل الرحمان میں چی گویر ا کی روح حلول بلکہ دخول کر گئی اور پاکستان کے سیاسی معروض نے بالکل الٹی ”دشا“ میں کروٹ لے لی جو کسی سیاسی شب خون سے کم نہیں تھا لیکن شاید پاکستانی عوام ہر طرح کے حالات اور خبر کیلئے تیار رہتے ہیں سو یہاں کچھ بھی حیران کن نہیں ہوتا لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ واقعات کے تسلسل میں ہمیشہ ایک کڑی ایسی ضروری ہوتی ہے جو واقعات کے تواتر اور تسلسل اور زمان و مکان کے حوالے سے آپس میں جوڑ رہی ہوتی ہے اور بات سمجھنے کیلئے یہی کافی ہوتی ہے۔ ابھی مولانا فضل الرحمان کی نئی سیاسی چال بارے سوچ رہا تھا، پرانے اخبارت، عمران اور مولانا کی پرانی تقاریر اور ایک دوسرے پر الزامات اور اُس کے نتیجہ میں ہونے والی سماجی ذہن سازی کے حالات و اقعات کا جائز ہ لینے میں مصروف تھا کہ فرزندِ وزیر آباد لیاقت علی چٹھہ کمشنر راولپنڈی نے نیا ”کٹا“ کھول دیا۔ جس کے مطابق اُن کا ضمیر جاگ چکا ہے اور انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کی ملامت کے بعد فجر سے پہلے خود کشی کا سوچا لیکن پھر خیال آیا کہ حرام موت مرنے کا کیا فائدہ لیکن یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی کتنی بڑی تعداد اُن کے رابطے میں ہے جنہوں نے انہیں خود کشی جیسا حرام جرم کرنے پر مجبور کیا یا انہیں اوورسیز پاکستانیوں کے ردعمل کا ڈیٹا بہم پہنچایا جا رہا تھا۔ اوورسیز پاکستانیوں کے غیرت دلانے پر انہیں بھی خیال آیا کہ کیوں نہ حقائق کا وہ ”پوشیدہ خزانہ“ جو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے اور جس نے تمام سیاسی جماعتوں اور اُن کے ورکروں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے سب کچھ کھو ل کر صرف اوورسیز نہیں پوری پاکستانی قوم کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایسا کرنے کیلئے انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج سے اگلے دن کا انتخاب کیا جب اخبارات کے سرورق پر تحریک انصاف کا احتجاج اور گرفتاریوں کی خبر شائع ہو چکی تھی۔ جم خانہ کمشنر کے نام سے شہرت پانے والے لیاقت چٹھہ کے مطابق انہوں نے بطور کمشنر، راولپنڈی ڈویژن میں بدترین دھاندلی کرائی اور الیکشن کے نتائج اس طرح تبدیل کرائے کہ ستر 70 ہزار سے جیتنے والوں کو پچاس 50 ہزار سے ہروا دیا۔ اُن کے یہ الزامات سو فیصد سچ ہو سکتے ہیں اگر وہ اِس کے ثبوت فراہم کر دیں کیونکہ اب الزامات لگانے کے بعد یہ اُن کی قانونی، اخلاقی اور حلفی ذمہ داری ہے۔

20 ویں گریڈ کا افسر جس کی ساری زندگی افسری میں گزری اور 6 فروری کو بیٹھنے والی صوبائی سلیکشن کمیٹی نے اُن کو 21 ویں گریڈ میں ترقی دینا تھی لیکن اُسے پندرہ دن کیلئے ملتوی کر دیا گیا اور 17 فروری کوجب چٹھہ صاحب کو یقین ہو گیا کہ انہیں پرموشن نہیں دی جا رہی تو انہوں نے میڈیا کے سامنے وہ ”حقائق“ رکھ دیئے جو اگر وہ نہ رکھتے تو انہیں خود کشی جیسے حرام فعل کا سامنا کرنا پڑتا حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اُن سے پرموشن کے وعدہ پر بھی یہ سب کچھ کرایا گیا تھا تو انہیں پرموٹ کرنا کوئی بڑی ڈیل نہیں تھی چہ جائیکہ اتنا بڑا پنڈورا باکس کھلوا دیا جاتا جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ بات کچھ اور ہے اور اتنی سیدھی بھی نہیں کہ اُسے آسانی سے نظر انداز کر دیا جائے۔ جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ کمشنر راولپنڈی کے پاس کوآرڈینشن کے علاوہ کوئی اختیارات ہی نہیں تھے تو وہ نتائج پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے تین روز میں تحقیقات مکمل کر کے سامنے لانے کا اعلان کر دیا ہے جس کا آغاز پیر سے ہو چکا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے نہ صرف کمشنر راولپنڈی کے الزامات کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے بلکہ پنجاب کے نگران وزیر برائے اطلاعات عامر میر نے لیاقت چٹھہ کو ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے بارے میں پہلے بھی ایسی اطلاعات ملتی رہی ہیں کہ وہ اچانک ذہنی مریضوں جیسی عجیب و غریب باتیں شروع کر دیتے ہیں، اُن کی ذہنی حالت مشکوک ہے۔ تحریک انصاف نے اِس کو اپنے موقف کی جیت قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس سے سو موٹو لینے کی درخواست کی ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ چیف جسٹس کا تو الیکشن سے تعلق ہی کوئی نہیں ہوتا الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوتی ہے باقی الزام تو کوئی بھی لگا سکتا ہے اگر یہ میرے اوپر چوری یا قتل کا الزام لگا دیں گے تو کیا انہیں بغیر ثبوتوں کے تسلیم کر لیا جائے گا۔ الزام نہ لگائیں ثبوت اور شواہد لے کر آئیں پھر قانون کے مطابق فیصلہ ہو گا۔

ابھی اِس موضوع پر بڑے بڑے کوتلیہ اور میکاولی اپنے اپنے افلاطونی اذہان سے نہ جانے کیا کیا کچھ نکال کر لائیں گے لیکن ایک بار پھر پاکستان کے الیکشن پر دھاندلی کے الزام کی گہری مہر لگ چکی ہے۔ 1970 سے لے کرآج تک صرف 2018 کے انتخابات ایسے ہیں جن کو عمران نیازی نے پاکستان کی تاریخ کے صاف شفاف ترین الیکشن قرار دیا تھا حالانکہ اُس وقت بھی آر ٹی ایس یعنی Result Transmission System بُری طرح بیٹھ گیا تھا اور اٹھا اُس وقت تھا جب تحریک انصاف جیت چکی تھی لیکن عذرِ گناہ بد تر از گناہ ہی تصور ہوتا ہے۔ دو کالے مل کر ایک سفید نہیں بن سکتے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں الیکشن اور دھاندلی آج کے دن تک تو لازم و ملزوم دکھائی دے رہے ہیں اور اِس بارے کوئی بھی مطمئن نہیں اور اُس کی واحد وجہ ایک تو یہ ہے کہ کوئی بھی اکیلا حکومت بنانے کے قابل نہیں اور دوسرا پاکستان کے سامنے کھڑا مسائل کا کوہ ہمالہ ہے جسے دیکھ کر سیاسی جماعتوں کا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔ الیکشن کا میدانِ جنگ لاشوں اور زحمیوں سے اٹا پڑا ہے، گرد ایسی اُڑ رہی ہے کہ پاس پڑی چیز دکھائی نہیں دے رہی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک بار پھر یہ گرد بیٹھ جائے گی اور سب ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیں گے کیونکہ الیکشن کے نتائج تو آ چکے، دو بار الیکشن کرانے کی ریاست متحمل نہیں ہو سکتی اور اگر الیکشن نتائج نا قابل ِ قبول ہیں تو پھر ایک طویل رات ہے کہ شروع ہونے کو مچل رہی ہے۔ ووٹ دینے والوں سے زیادہ ذہین ووٹ لینے والے ہیں اور اُن سب سے زیادہ عقل مند اور طاقتور ابھی تک تو وہی ہے جو اقتدار منتقل کرتے ہیں کہ آج تک پاکستان کی تخلیق سے لے کر آج تک کبھی اقتدار اُن کے خلاف نہیں آیا۔ ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار کیلئے ہمیشہ باہر دیکھنے کی عادت ہے اور جو عوامی طاقت کے بجائے باہر دیکھتا ہے وہ ہمیشہ باہر ہو جاتاہے یہی ہماری تاریخ اور موجودہ معروض بتا رہا ہے کیونکہ لیاقت چٹھہ نے اسٹیبلشمنٹ کو صاف شفاف الیکشن کرانے کا کریڈٹ دے دیا ہے اور قانون شہادت یہ کہتا ہے کہ شہادتی یا مکمل جھوٹا ہوتا ہے یا مکمل سچا۔