الیکشن 2024 کا عمل ووٹنگ کی حد تک تو مکمل ہو گیا۔ اگلے مرحلے میں وزیر اعظم اور وزرا اعلیٰ کی نامزدگیوں کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس کے بعد حکومت سازی اور صدر ممکت کا انتخاب اور شائد گورنر حضرات کی نامزدگیوں کا مرحلہ آئے گا۔
الیکشن کے حوالہ سے اب تک کی روایت یہی رہی ہے کہ الیکشن ہارنے والی پارٹی ہر دھاندلی اور ووٹ چوری کے الزامات لگاتی ہے، لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انتخابی سیاست میں انٹری کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے احتجاج اور الزام تراشی کی سیاست کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ کبھی 124 دن کا دھرنا، کبھی لاک ڈائون اور کبھی گلی گلی احتجاجی مظاہرے۔ اس کے علاوہ دھمکی آمیز تقاریر اور بیانات حتیٰ کہ سول نافرمانی کی کالیں پی ٹی آئی کی سیاست کا خاصہ رہے ہیں اور بدقسمتی سے اس طرز سیاست کو عوام میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہے۔
کیا یہ بات سوچنے کا مقام نہیں کہ ہمارے ہاں، حکومتی سطح پر، کبھی اس بات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا کہ یہاں مولاجٹ ٹائپ ،خون خرابے یا قانون شکنی والی فلمیں ہی کیوں زیادہ مقبول ہوتی ہیں؟ اس کے علاوہ غنڈہ اور بدمعاش قسم کے عناصرکیوں شہروں اور محلوں کے معززین بن چکے ہیں؟یہ بات بھی کافی زیادہ قابل غور ہے کہ ملک میں ہونے والی قانون شکنی اور وارداتوں میں کچھ تو ایسے لوگ ملوث ہوتے ہیں جو کسی نا کسی مجبوری میںیہ سب کچھ کرتے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان نوجوانوں کی بھی ہے جو اچھے بھلے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور محض ایڈونچر کے لیے اس قسم کی حرکتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
اگر مختلف شہروں میں ہونے والے جرائم کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ قتل اور ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور ریپ جیسی بے شمار سنگین وارداتیں محض ایڈونچر کی خاطر کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار مختلف قسم کے کرتب دکھاتے ہوئے منچلے نوجو ان بھی اقتصادی طور پر مستحکم فیملیز سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ غرض میرا خیال ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس چونکہ اپنے اندر کی توانائی اور صلاحیت دکھانے کے مناسب فورم ہی موجود ہی نہیں ہیں اس لیے وہ مختلف قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اس ماحول میںپاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین نے جس قسم کی سیاست اپنائی ہے اس کی اساس ہی دھمکیوں، ہلڑ بازی ایک آزادانہ ماحول میں نوجوانوں کے مخلوط اجتماعات اور بغاوت جیسے کاموں پر اکسانا ہے، شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان انکی سیاست کی طرف راغب بھی ہیں اور انہیں آئیڈیلائز بھی کرنا شروع ہو گئے ہیں۔
اطلاعات یہ ہیں کہ ہمیشہ الیکشن میں دھاندلی کا رونا رونے والی پاکستان تحریک انصاف نے اس مرتبہ بھی قبل از الیکشن اور بعد از الیکشن مختلف قسم کی پلاننگ تیار کی تھیں۔ ان میں سے کچھ تو بالکل ہی نمی کا شکار آتش بازی ثابت ہوئیں لیکن ایک پلاننگ جس کا جماعت اسلامی بھی حصہ ہے اس کا ابتدائی حصہ کامیاب ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سکرپٹ اس قدر تگڑا ہے کہ اس کا پول ابھی تک نہیں کھلا۔
ہمارے ملک کی سیاست اس قدر مہنگا کھیل بن چکا ہے کہ اسمبلی الیکشن لڑنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔ (سرمایہ کاری کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ سیاست بھی اب ایک کاروبار بن چکا ہے ہے اور کروڑوں کی سرمایہ کاری کرنے والے بعد ازاں کئی گنا زیادہ کمانے کے چکر میں ہوتے ہیں)۔ اس سرمایہ کاری، لالچ اور افراتفری کے ماحول میںایک صاحب جو الیکشن جیت چکے ہیں، اچانک اٹھتے ہیں اور اعلان فرما دیتے ہیں کہ وہ الیکشن جس میں ان کو فاتح قرار دیا جا رہا ہے در اصل وہ یہ الیکشن جیتے ہی نہیں۔
جی ہاں میں اس وقت کراچی سے جماعت اسلامی کے راہنما حافظ نعیم الرحمن کا ذکر کر رہا ہوں۔ موصوف کو صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب قرار دیا گیا تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ تو یہ الیکشن جیتے ہی نہیں اور اس سیٹ کے اصل حقدار پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ بظاہر تو یہ کسی غیر معمولی ایمانداری کی کہانی لگتی ہے لیکن میرے خیال میں اس سارے معاملہ میں سچائی اور ایمانداری سے زیادہ سیاست کا عمل دخل ہے۔
پاکستان تحریک انصاف جس طرح فارم 45 اور فارم 47 کو لے کر انتخابات میں دھاندلی کا شور تومچا رہی ہے لیکن زیادہ تر فورمز پر یہ اپنا موقف موثر انداز میں ثابت کرنے میں ناکام ہے، اس صورتحال میں اگر ایک جیتا ہوا امیدوار یہ اعلان کردے کہ انتخابات میں تو زبردست دھاندلی ہوئی ہے اور اس کے ریکارڈ کے مطابق تو وہ جیتا ہی نہیں لیکن پھر بھی اس کو فاتح قرار دے دیا گیا ہے، تو اس معاملے کا براہ راست فائدہ پی ٹی آئی کے موقف کو ملے گا اور یہ بیانیہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کا بھی بہترین ٹول ثابت ہو گا۔
ایک طرف پی ٹی آئی اپنی احتجاجی سیاست کے لیے اس قسم کی کھچڑی پکا رہی ہے تو دوسری طرف لگتا ہے کہ اس کے ساتھ ٹکرلینے کی سیاست بھی جاری ہے۔
ہم نے دیکھا کہ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے اپنے سابقہ اتحادیوں اور دوستوں کی میٹنگ میں جانے سے احتراز برتا۔ اس کے بعد انہوں نے نہ صرف انتخابی نتائج پر شدید قسم کے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے اور ایک ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
خیال یہ ہے کہ بروقت اٹھایا گیا یہ قدم اپوزیشن اور احتجاج کی سیاست میں مولانا کی برتری قائم کر دے گا اور عین ممکن ہے کہ اس ایکشن کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا رنگ بالکل ہی پھیکا پڑ جائے۔
سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ باقی جماعتیں تو محض شور و غوغا ہی کر رہی ہیں لیکن اگر حقیقت میں کسی جماعت کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے تو وہ نواز لیگ ہے لیکن اس کے لیے صورتحال ایسی بنا دی گئی ہے کہ وہ کھل کر احتجاج کر سکتی ہے اور نہ ہی آسانی سے حکومت بنا سکتی ہے۔ بہر کیف معاملات جو بھی ہوں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات پاکستان کی سالمیت اوراستحکام کے لیے اچھے نہیں ہیں اور اگر اس وقت بھی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر ملکی مفاد میں فیصلے نہ کئے تو تاریخ ان سب کو بدترین الفاظ میں یاد کرے گی۔