سیاسی سزائیں ۔۔

ممکن ہے جج صاحب نے سوچا ہو موت کا کیا پتہ کب آجائے لہٰذا قبر میں عمران خان کے دوران عدت نکاح کا حساب عمران خان کی جگہ اگر اْنہیں دینا پڑ گیا وہ کیا کریں گے؟۔۔ حسب معمول اور حسب توفیق عدالتی حکمرانوں کو اپنا’’سہولت کار‘‘ بنا کر سیاسی حکمرانوں یا سیاستدانوں کو سزائیں دلوانے کا عمل نیا نہیں جس پر ہمیں کوئی حیرانی یا پریشانی ہو ، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو سائفر توشہ خانہ اور عدت کیسز میں جو سزائیں سْنائی گئیں اْس پر اتنا سیخ پا یا ناراض ہونے کے بجائے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ اس سے پہلے سیاستدانوں کو اْن کے ناکردہ گناہوں پر جو سزائیں سْنائی یا دی گئیں اْن پر کوئی احتجاج ہم نے کیوں نہیں کیا ؟ میں بارہا یہ عرض کرتا ہوں جتنی کرپشن یا جتنے بلنڈرز اس مْلک کے اصل حکمرانوں نے کئے بے چارے سیاستدانوں نے اْس کے عشر عشیر بھی نہیں کئے ، پاکستان کس نے توڑا تھا ؟ کیا ہم نے اس پر ہلکا سا احتجاج بھی کبھی کیا ؟ اْن مجرموں کو سزائیں کیوں نہیں دی گئیں ؟ اس مْلک کو صحیح سمت میں اگر لے کر جانا ہے تو سب سے پہلے عوام کو اپنا قبلہ درست کرنا پڑے گا ، سب سے پہلے ہمیں کوئی غیرت دکھانی پڑے گی ، بلا تفریق احتساب کے لئے زور دینا پڑے گا ، لیکن کیا کریں ہم’’بھیڑ بکریوں‘‘ کو اس کا کوئی ادراک ہی نہیں ہے، تھوڑی بہت’’گھاس‘‘ ہمیں ڈال دی جاتی ہے اور حْکم دیا جاتا ہے بس اسی پر گْزارہ کرو ورنہ ذبح کر دیا جائے گا ، ہمارے ہاں احتساب بھی اْسی طرح کا’’صاف شفاف‘‘ ہوتا ہے جس طرح کے ’’صاف شفاف‘‘ انتخابات ہوتے ہیں ، 8 فروری کو یہ عمل پھر سے دہرایا جانے والا ہے اور ہم نے پھر سے اسے قبول بھی کر لینا ہے، اس مْلک میں جمہوریت مزید لاغر ہوتی رہے گی جب تک عوام اپنے حقوق پر ڈاکہ مارنے والوں کی ڈاکہ زنیوں پر مسلسل چْپ رہیں گے ، یا ایسا ’’کْھسرانہ‘‘ سا احتجاج کریں گے جس سے کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ، جہاں تک ہمارے سیاستدانوں کا تعلق ہے اْن کی اکثریت شاید خود بھی نہیں چاہتی جمہوریت مضبوط ہو ، سیاستدان بھی مثالی اتحاد اگر کر لیں یا اپنی جماعتوں میں کوئی ’’ڈسپلن‘‘ وہ بھی اگر لے آئیں ، پھر کوئی اپنے مذموم مقاصد کے لئے اْنہیں استعمال نہیں کر سکے گا ، یہ ’’معجزہ‘‘ اللہ کرے اب ہو جائے ، اور اْس کے بعد سیاستدانوں کو بھی اپنے اعمال سے یہ ثابت کرنے کا موقع مل جائے گا جب کوئی پریشر اْن پر نہیں ہوتا وہ اپنے فرائض منصبی یا اپنی ذمہ داریاں زیادہ بہتر طریقے سے انجام دیتے ہیں ، جب تک سیاست کا بکاؤ مال اپنی اصلاح نہیں کرتا خود بھی ذلیل ہوتا رہے گا ساتھ اْنہیں بھی کرواتا رہے گا جو سیاست کو واقعی عبادت اور خدمت کا درجہ دیتے ہیں ، جہاں تک عوام یا ’’ہجوم‘‘ کا تعلق ہے، اس مْلک میں کتنے سیاستدان قتل ہوئے ، کتنے نااہل ہوئے ، کتنوں کو سزائیں ہوئیں ، ’’ہجوم‘‘ کے کان پر جْوں تک نہیں رینگی ، عمران خان کو ھم سمجھاتے تھے مگر وہ اس حقیقت سے انکاری تھے، وہ سمجھتے تھے پاکستان اب بدل گیا ہے، وہ سمجھتے تھے پاکستان میں سب سے بڑی قوت اب عوام کی ہے،وہ سمجھتے تھے اْنہیں اگر گرفتار کیا گیا لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور اْس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک اْنہیں رہا نہیں کیا جاتا ،وہ سمجھتے تھے وہ کوئی نواز شریف یا زرداری ہیں جنہیں اتنی آسانی سے سزائیں دلوائی جا سکیں ؟ وہ جانتے تھے وہ صادق اور امین نہیں ہیں مگر اْنہیں ایمان کی حد تک یقین تھا دْنیا اْنہیں صادق اور امین ہی سمجھتی ہے، وہ سمجھتے تھے پاکستان کا نیا جی ایچ کیو اب بنی گالہ یا زمان پارک ہے،افسوس وہ بہت ساری خوش فہمیوں میں مارے گئے ، یہ درست ہے اْن کے کچھ اعمال یا اقدامات کے نتیجے میں آج اْن کی شہرت آسمانوں کو چْھو رہی ہے مگر اْس شہرت کا کیا فائدہ جو عملی طور پر اْن کے کسی کام آ رہی ہے، نہ مْلک کو اس کا کوئی فائدہ ہو رہا ہے نہ ہی اْن کی بچی کھچی سیاسی جماعت کو ہو رہا ہے، اگر 8 فروری کو یہ شہرت سوشل میڈیا سے نکل کر پولنگ اسٹیشنوں پر نہ پہنچی خان صاحب کی ساری اْمیدیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شاید اْسی طرح دم توڑ جائیں جس طرح لوگوں کی اْن سے وابستہ بہت سی اْمیدیں اْن کے اقتدار میں آنے کے بعد دم توڑ گئی تھیں ، پھر یہ مْلک اْنہی سیاسی و اصلی شکنجوں میں پھنسا رہے گا جو ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ہمیشہ ترجیح دیتے رہے، جنہوں نے انتظامی آئینی و اخلاقی ڈھانچے مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دئیے ، جو اندھا دْھند طاقت کے نشے سے چْور چْور ہیں ، نو مئی کے واقعات میں ملوث اصل مجرموں کو قانوں کے مطابق سزا ضرور ملنی چاہئیے ، سپریم کورٹ بھی ایک ادارہ ہے، اس ادارے پر اینٹیں برسانے والوں اور اس کی بے حْرمتی کرنے والوں کو سزائیں اگر مل گئی ہوتیں نو مئی کا واقعہ شاید نہ ہوتا ، اس واقعے کی آڑ میں جو ظلم جو بدکرداری و سہولت کاری ہماری پولیس نے کی تاریخ میں وہ سیاہ حروف سے لکھی جائے گی ، پولیس کو اس کا حساب دینا پڑے گا ، ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، میرا ایمان ہے وہ وقت ضرور آئے گا جب ایک ایک چہرہ بے نقاب ہوگا ، پولیس کے چہرے سے نقاب اْتارنے کی ذمہ داری پی ٹی آئی کے مقتول ملنگ ظل شاہ کی ہوگی ، وہ سب چہرے بھی بے نقاب ہوں گے جنہوں نے ظالموں کے ساتھ دیئے یا جو حق سچ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے ، وہ سب نادان لوگ خسارے میں ہیں جو سمجھتے ہیں وقت ہمیشہ اْن کا غلام رہے گا ، جنرل مشرف کو دبئی میں جس آزمائش سے گْزرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے میں نے دیکھا ، یہ مقام عبرت ہے جس سے کل کسی نے کوئی سبق سیکھا نہ آج سیکھنے کے لئے کوئی تیار ہے، اس سے قبل جنرل ضیاالحق کے ساتھ جو ہوا یہ بھی مقام عبرت ہے جس سے سبق سیکھنے کے لئے کوئی تیار نہیں۔۔ عمران خان کو سائفر اور توشہ خانہ کیسز میں سزائیں سْنائی گئیں ، پاکستان شاید دْنیا میں واحد مْلک ہے جہاں سیاستدانوں یا سیاسی حکمرانوں کو سزائیں سْنانے کے لئے اْن کا کوئی جْرم ہونا ضروری نہیں ، سائفر اور توشہ خانہ جیسے ہزاروں جْرائم وہ کر لیں ، بس اپنے حقوق کی لڑائی وہ اگر نہ لڑیں اْن کے سارے جْرائم معاف کر دئیے جاتے ہیں ، ماضی اور حال میں جن سیاستدانوں کو سزائیں سْنائی یا دلوائی گئیں اْن کا اصل جْرم صرف ایک تھا اپنے آئینی اختیارات اپنے حقوق کے لئے وہ ڈٹ گئے تھے، عمران خان اچھی بھلی سیاسی جدوجہد کر رہا تھا ، بغیر اقتدار کے عزت بھی اْس کی بنی ہوئی تھی ،اہلیت کا بھرم بھی قائم تھا ، پھر اچانک وہ ٹریپ میں آگیا ، جس کے بعد کمزور سا اقتدار تو اْس نے حاصل کر لیا پر ہر معاملے میں اپنی اڑ جانے والی فطرت سے نجات نہ حاصل کر سکا ، اب اْسے ایک اٹل ارادہ یا فیصلہ ضرور کر لینا چاہئے ، دوبارہ کسی کے ٹریپ میں وہ نہیں آئے گا ، دوبارہ کسی کی ’’کریکی‘‘ میں وہ نہیں پھنسے گا ، اپنے مذموم مقاصد کے لئے دوبارہ کوئی اْسے استعمال کرنا چاہے وہ انکار کر دے گا ، جو شاید وہ اس لئے نہ کر سکے کہ اقتدار کا چسکا بہت بْرا ہوتا ہے، یہ چسکا ووٹ کو عزت دینے والوں کو دوبارہ بْوٹ کو عزت دینے کے مقام پر لے آتا ہے، سو مجھے یقین ہے جو کمزور سی حکومت اب بنائی جائے گی اْس کے خلاف پھر کوئی سازش درکار ہوئی ایک بار پھر عمران خان کو جیل سے نکال کر استعمال کرنے کی پوری کامیاب کوشش کی جائے گی ، یہ معاملہ اگر زیر غور نہ ہوتا تو جتنی عمران خان سے اْنہیں نفرت ہے اْسے دس سال کی سزا سْنانے یا دلوانے کے بجائے شاید سزائے موت سْنا دی جاتی ، اصل گزارش ایک بار پھر دہرائے دیتا ہوں ، ہمارے سیاستدان جب تک ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونا بند نہیں ہوں گے ، وہ اسی طرح سزائیں بْھگتتے رہیں گے ، اسی طرح ذلیل و رْسوا ہوتے رہیں گے ، کل نواز شریف کے ساتھ ہو رہا تھا آج عمران خان سے ہو رہا ہے، ممکن ہے کل کلاں ایک بار پھر ایسا ماحول پیدا ہو جائے عمران خان کے سارے کیسز بند ہو جائیں نواز شریف کے دوبارہ کْھل جائیں ، کوئی نہ کوئی نواں کٹا اْس وقت تک کْھلتا رہے گا جب تک ہمارے تمام سیاستدان یا سیاسی قوتیں یہ طے نہ کر لیں وہ کسی کا ’’ہتھیار‘‘ نہیں بنیں گی۔۔