سیاسی جماعتوں کے منشور میں خصوصی افراد کا حصہ

ملک میں عام انتخابات 2024ء کل یعنی 8فروری کو ہونے جارہے ہیں۔ اِن انتخابات میں سیاسی جماعتیں، قطع نظر اس بات سے کہ وہ چھوٹی ہیں یا بڑی، اپنے بڑے بڑے دعووں کے ساتھ کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ جمہوری عمل کے اِس عملی مظاہرے میں سنجیدہ روایات کے مطابق سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل اپنا سیاسی منشور عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اس منشور سے اُس سیاسی جماعت کی سوچ اور ان کے مستقبل کے ارادوں کا پتا چلتا ہے۔ سنجیدہ جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں کے منشور کی بہت اہمیت ہوتی ہے تاہم ہمارے جیسے کم سنجیدہ جمہوری معاشروں میں بھی سیاسی جماعتیں اپنا کچھ نہ کچھ سیاسی منشور پیش کرتی ہیں خواہ وہ اس پر پوری طرح عمل کرسکیں یا نہ کر سکیں۔ فروری 2024ء کے عام انتخابات سے قبل بھی کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنا سیاسی منشور پیش کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں ملک کے مختلف طبقات اور مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن آج کی اس تحریر میں ہم چند بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں ملک کے اندر بسنے والے ایک خاص طبقے کے مسائل کے حوالے سے پیش کئے گئے منصوبوں کو تلاش کریں گے۔ وہ خاص طبقہ خصوصی افراد کا ہے۔ پاکستان میں اِس وقت تقریباً 25کروڑ کی آبادی موجود ہے جن میں تقریباً 4کروڑ افراد باہم معذور ہیں۔ یہ اچھی خاصی تعداد ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سوائے ایک دو سیاسی جماعتوں کے باقی کسی سیاسی جماعت نے ملک میں بسنے والے تقریباً 4کروڑ خصوصی افراد کے حوالے سے اپنا کوئی مستقبل کا منصوبہ پیش نہیں کیا۔ جن سیاسی جماعتوں نے اِس حوالے سے اپنے منشور میں خصوصی افراد کے مسائل کو حل کرنے کی بات کی ہے اُسے ذیل میں تحریر کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں اپنا سیاسی منشور ’’پاکستان کو نواز دو‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ اس منشور کو تیار کرنے کی ذمہ داری مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی کو سونپی گئی اور انہیں منشور کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا جنہوں نے تقریباً 32 سب کمیٹیاں ترتیب دیں اور یوں مسلم لیگ ن کا ایک جامع منشور سامنے آیا۔ اس منشور میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مختلف موضوعات کے تحت مستقبل کے منصوبے پیش کئے گئے ہیں اور اپنی سابقہ کارکردگی کو تقابلی جائزے کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ انہی میں سے ایک موضوع خصوصی افراد سے تعلق رکھتا ہے جس کا عنوان مسلم لیگ ن کے منشور میں ’’مساوات کو فروغ۔ وقار کا تحفظ‘‘ ہے۔ اس میں خصوصی افراد کی فلاح و بہبود کے حوالے سے درج ذیل نکات کا ذکر کیا گیا ہے جوکہ منشور کی ہی زبان میں پیش کئے جارہے ہیں۔ ٭صحت کی بہتر سہولیات۔ خصوصی افراد کے لیے مخصوص صحت سہولیات۔ ٭ہنرمندی کے مراکز کا قیام۔ خودکفالت کا فروغ۔ ٭رسائی کی بہتری کے لیے جامع نظام۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں فروری 2024ء کے عام انتخابات کے لیے اپنا سیاسی منشور ’’چنو نئی سوچ کو‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ اس میں انہوں نے مختلف موضوعات کے تحت ملک کی ترقی کے منصوبے ظاہر کئے ہیں۔ انہی میں ایک موضوع ’’خصوصی افراد کے انسانی حقوق‘‘ ہے جس کے اہم نکات یہ ہیں۔ ٭خصوصی افراد کے ڈیٹا اکٹھا کرنے کو قانون سازی اور انتظامی اقدامات کے ذریعے ادارہ جاتی بنایا جائے گا جس میں خاص طور پر معذور بچوں کی پیدائش کا اندراج ان کے گھر جاکر کرنا شامل ہے جوکہ مستقبل کی منصوبہ سازی کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔ ٭خصوصی افراد کی ہرسطح پر سیاست میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور انہیں سہولیات فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ سیاسی طور پر بااختیار ہو سکیں۔ ٭خصوصی افراد اور خاص طور پر خصوصی لڑکیوں کے لیے جامع تعلیم کو سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں فروغ دیا جائے گا۔ ٭خصوصی افراد کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے صوبائی سطح پر ڈس ایبی لیٹی کمیشن (معذوری کمیشن) قائم کئے جائیں گے تاکہ سوسائٹی کے بنیادی ڈھانچے اور اندازفکر میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کام کیا جائے۔ ٭ایسی قانون سازی کی جائے گی اور پالیسیاں بنائی جائیں گی جس سے سرکاری اور نجی اداروں میں خصوصی افراد کی ملازمتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں خصوصی خواتین کو ملازمتیں فراہم کرنے پر خاص توجہ دی جائے گی۔ ٭ایسی ویب سائٹس اور پورٹلز بنائے جائیں گے جن تک سماعت اور بینائی سے محروم افراد کی رسائی آسان ہو۔ ان میں تعلیمی اداروں میں داخلوں کے فارم اور ملازمتوں کے لیے درخواست فارم آسانی سے قابل رسائی صورت میں موجود ہوں گے۔ ٭پالیسی اصلاحات کے ذریعے خصوصی افراد کو قابل رسائی سرکاری ونجی ٹرانسپورٹ کا نظام فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے جن میں عوامی مقامات پر ریمپ بنانا بھی شامل ہوگا۔ ٭خصوصی افراد کے لیے ووٹر رجسٹریشن کے طریقہ کار کو سادہ بنایا جائے گا۔ ٭پاکستان پیپلز پارٹی بچوں کے حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزیوں کے واقعات کو فکر اور بڑی تشویش سے دیکھتی ہے۔ اِن متاثرین میں خصوصی بچے بھی شامل ہیں۔ پی پی پی بچوں کے حقوق، تحفظ اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گی جن میں قانون سازی اور بڑے پیمانے پر عوامی شعور اجاگر کرنا شامل ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2013ء کے عام انتخابات اور بعد ازاں اپنے کنٹینر والے دھرنوں کے دوران خصوصی افراد کے حوالے سے اپنے منصوبے پیش کئے تھے لیکن 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پی ٹی آئی کے منصوبوں میں خصوصی افراد کے لیے منصوبے کہیں نظر نہیں آئے اور اب فروری 2024ء کے عام انتخابات کے پی ٹی آئی کے منشور میں بھی خصوصی افراد کے لیے کوئی گوشہ مخصوص نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی، جے یو آئی ایف اور اے این پی جیسی سیاسی جماعتوں کے فروری 2024ء کے عام انتخابات کے لیے منشور میں خصوصی افراد کو قابل توجہ نہیں سمجھا گیا۔ ہوسکتا ہے یہ جماعتیں خصوصی افراد کو معاشرے کا ناکارہ حصہ سمجھتی ہوں اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنانا ان سیاسی جماعتوں کے نزدیک وقت کا ضیاع ہو۔ خیر یہ ان سیاسی جماعتوں کا اپنا نکتہ نظر ہے۔ آخر میں ملک میں بسنے والے تقریباً 4کروڑ خصوصی افراد کے ایک دیرینہ مطالبے کی بات کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ خصوصی افراد کا بھرپور مطالبہ ہے کہ سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خصوصی افراد کی نمائندگی کے لیے نشستیں مختص کی جائیں جیسا کہ سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ نشستیں مخصوص ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے خصوصی افراد کا یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا اور اس کا سہرا کس سیاسی جماعت کے سرپر سجے گا۔