بھارت میں مذہبی آزادی کا یہ حال ہے کہ اب تک مذہبی تشدد اور فسادات کے ہزاروں واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں مسلمانوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کا خاصا جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ خاص طور پر دہلی میں 1984ء کے سکھ مخالف فسادات، کشمیر میں 1990ء میں ہندو مخالف فسادات، گجرات میں 2002ء کے مسلم مخالف فسادات اور 2008ء میں مسیحی مخالف فسادات۔یعنی جمہور ی ملک کا را گ الاپنے والا بھارت شام، عراق اور نائیجریا کے بعد مذہبی فساد ات کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر آ گیا جہاں 10 سال میں اوسطاً روزانہ 2 افراد قتل ہوئے۔ جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں بھارت میں گروہی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مودی بھارت کو صرف ہندوؤں کا ملک بنانا چاہتے ہیں اور وہ بھی انتہا پسند ہندوؤ ں کا۔اس کیلئے وہ اپنے ہندو قوم پرست نظریے پر جارحانہ طریقے سے عمل پیرا ہیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور آسام میں لاکھوں مسلمانوں کی ملک بدری کے واقعات، بابری مسجد کا فیصلہ اور متنازع بھارتی قانون ان خدشات کو تقویت دے رہا ہے کہ وزیراعظم مودی سیکولر اور اجتماعیت کے اصولوں کو نظر انداز کر کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ہندو قوم بنانا چاہتے ہیں۔
سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی کے پروفیسر اشوک سوائن نے کہا بھارتی جمہوریت کی نوعیت سیکولر ہے مگر مودی اکثریت کی بنیاد پر طاقت حاصل کرنے میں لگے ہیں جس میں اقلیتی حقوق کی کوئی گنجائش نہیں۔ بی جے پی کے ایجنڈے میں مذہبی اقلیتوں کے مخصوص قوانین تحلیل کر کے شادی، خاندانی امور اور موت سے متعلق یکساں سول ضابطہ رائج کرنا ہے۔امریکی تھنک ٹینک ولسن سنٹر کے مائیکل کوگل مین نے کہا بھارت میں ہندو قوم پرست ایجنڈے پر جارحانہ طریقے سے عمل کیا جا رہا ہے، جس کے مضمرات کئی عشروں سے رائج سیکولرازم اور اجتماعیت پر مبنی بھارتی جمہوریت کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھارتی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
بھارت نام نہاد سیکولرازم سے ہندو پرستی، جنونیت اور انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے۔نئی دہلی سمیت پورے بھارت میں سیکڑوں مساجد پرناجائز قبضہ کر کے تالے لگا دیے گئے ہیں اور بہت سی مساجد حکومت کے قبضے میں چلی گئی ہیں۔ امن عامہ کی حالت مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسند کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ ان کے خلاف ہندو انتہا پسند ہندو عوام میں نفرت پر مبنی پمفلٹ تقسیم کر رہے ہیں۔ دیگر اقلیتوں کے خلاف بھی یہ انتہا پسند ہندو پر تشدد کارروائیاں کر رہے ہیں۔
بھارت سیکولر ریاست کے بجائے ہندو ریاست بنتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں پر تعلیم اور روزگار کے مواقع بند ہو چکے ہیں۔ بابری مسجد کے انہدام میں انتہا پسندوں کے ساتھ حکومت کا بھی ہاتھ ہے۔گجرات میںمسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تو ہندو انتہا پسندوں کے پس پشت گجرات حکومت تھی۔ بھارتی قانون میں ایسی شقیں ڈال دی گئی ہیں کہ کوئی اچھوت ہندو عیسائی یا مسلمان نہیں ہو سکتا۔
ہندو آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے غیر مذاہب سے متعصب چلا آرہا ہے خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ تو اس کا تعصب عروج پرہے۔ ہندوستان کے سیاستدانوں نے وہاں کے مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا اور مسلمانوں کو ہمیشہ نقصان پہنچایا۔ چنانچہ پہلے کانگریس نے سیکولر ازم کا نعرہ لگایا اور مسلمانوں کی ترقی کی قسمیں کھائیں۔ کبھی پنڈت نہرو پروہاں کے مسلمانوں کوفدا کیا گیا اور کبھی اندرا گاندھی کے ہاتوں پر وہاں کے مسلمانوں کو بیعت کرنے پر مجبور کیا گیا۔
آنجہانی پنڈت نہرو کے دور میں زمینداری ختم ہوئی۔ مسلمانوں کے قبضے سے ان کی زمین جائیدادجاتی رہی اور کل کا مسلمان زمیندار ہندوستان کی آزادی کے بعد وہاں کوڑیوں کا محتاج ہوگیا۔ اس کی جو بھی پونجی بچی تھی وہ وکلاء کی نذر ہو گئی لیکن انہیں بھارتی عدالتوں سے انصاف نہ ملا۔ مسلمانوں کی جائیداد کبھی کسٹوڈین کے قبضے میں گئی تو کبھی وکیل کے معاوضے کے نام پر رہن رکھی گئی۔ ایک طرف مسلمانوں کی اراضی اور جائیداد جاتی رہی تو دوسری طرف نئے زمیندار پیدا کئے گئے اور مسلمانوں کے علاوہ دوسری قومیں دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں ایکڑ اراضی پر کاشت کاری کرنے لگیں۔
تعلیمی لحاظ سے بھی مسلمانوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ شہروں میں54.6 فیصد اور گاؤں 60.2 فیصد مسلمانوں نے سکول کا کبھی منہ تک نہیں دیکھا۔ دیہی علاقوں میں صرف 0.3 فیصد مسلمان گریجوایٹ ہیں جبکہ شہروںمیں 40 فیصد جدید تعلیم حاصل کرنے والوں میں گریجوایٹ مسلمانوں کی تعداد 3.1 فیصد اور پوسٹ گریجوایٹ کی تعداد1.3 فیصد ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے اعلان کیا ہے کہ 25 کروڑ مسلمان اگر بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ”وندے ماترم“ کا گیت گانا ہوگا ورنہ وہ اپنا بوریا بستر یہاں سے گول کریں اور بھارت چھوڑ دیں۔ حکمرانوں کی اس دھمکی سے بھارتی سیکولر ازم کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔ ہندو پیدا ہی مکارانہ ذہنیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں پر روز بروز ظلم و ستم بڑھتا جا رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ خود کو زیادہ غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔
سکھوں کے ساتھ بھی عجیب مسئلہ ہے وہ صدیوں سے ہندوستان میں رہ رہے ہیں لیکن آج بھی ان کے ساتھ اقلیتوں کا سلوک جاری ہے۔ ہندو اپنی سازشی طبیعت کے باعث ان کا ہر موقع پر استحصال کر رہے ہیں۔ ان کو دوسری قوموں سے لڑا کر ان کو بدنام کر رہے ہیں جیسا کہ قیام پاکستان کے موقع پر پنجاب میں مسلمانوں کے قتل و غارت کی ذمہ داری سکھوں کو سونپی گئی اور ہندو آرام سے بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ سکھ مسلمانوں کے دشمن نہ تب تھے نہ اب صرف ان کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔
ایسے میں بھارتی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے بھی اس بھارتی طرز عمل پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور بھارتی سرکار کو سیکولر ازم کی دھجیاں بکھیرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔