خدمت خلق، افضل ترین عمل

انسانوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن دینِ اسلام نے خدمتِ انسانیت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے وہ رب چاہتا تو ہر ایک کو خوبصورت، مالدار اور صحت یاب پیدا کر دیتا لیکن یہ یک رنگی تو اس کی شانِ خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے، شائد اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا۔ رب العزت نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اس کا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے۔ وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معاشرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدد ان کے وہ بھائی بند کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تا کہ انسانوں کی درمیان باہمی الفت و محبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو۔ ایک معاشرہ اجتماعی طور پر جو انسان سے تقاضا کرتا ہے اس تقاضے کو پورا کرنا خدمتِ خلق، سماجی خدمت کہتے ہیں۔ انسان کہلانے کا وہی شخص مستحق ہے جو دوسروں کے لئے دل میں درد رکھتا ہو، دوسروں سے محبت کا سلوک رکھتا ہو، ان کی مصیبت میں مدد کرتا ہو ۔ الغرض انسان وہ ہے جو دوسروں کے لئے جئے۔ خدمتِ خلق اور ایثار کا جذبہ ہی انسان کو دوسرے سے افضل بناتا ہے۔ ہمارا مذہب مفلسوں، غریبوں کی دست گیری کی ہدایت کرتا ہے اور بیماروں کی مشکلات دور کرنے اور ان کے کام آنے کو انسانیت کی معراج قرار دیتا ہے مگر ہمارے آس پاس گلی محلوں شاہراہوں اور علاج گاہوں میں روزانہ ہزاروں مریض دوا اور علاج کے لئے بھٹکتے پھرتے اور بالآخر زندگی جیسی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کوئی ان کے دکھ دور کرنے پر توجہ نہیں دیتا۔ لیکن ایسے بہت سے لوگ آج بھی نظر آتے ہیں جو ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مدد کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

رابعہ ویلفئیر ٹرسٹ ہسپتال ایسے ہی دردِ دل رکھنے والی معروف سیاسی، سماجی و کاروباری خاندان نے بنایا ہے، جہاں غریبوں، یتیموں، بیواؤں کو مفت علاج معالجہ کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ رابعہ ویلفئیر ٹرسٹ ہسپتال جدید طرز کا ہسپتال ہے جو کہ بڑی سہولیات سے مزین ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں رابعہ ٹرسٹ ہسپتال میں لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین اور بچوں کو علاج معالجہ اور او پی ڈی کی سہولیات مفت مہیا کی گئیں جن میں 31ہزار مریضوں کو ٹی بی، ہیپا ٹیٹیس بی سی کی ادویات مہیا گی گئیں، 10 ہزار بچوں کو مفت ادویات، آنکھوں کے مرض میں مبتلا 30 ہزار مریضوں کو او پی ڈی اور سرجری کی سہولت، 46 ہزار مریضوں کو فری او پی ڈی اور سرجری کی سہولت، 18 ہزار جنرل سرجریز اور 35 ہزار یورولوجی کے مریضوں کی سرجریز اور ڈیلسیز کا ٹریٹمنٹ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعدا میں مریضوں کے فری لیبارٹری ٹیسٹ، ایکسریز اور دیگر ٹیسٹ کئے گئے۔

محترمہ نیہا نذیر رابعہ ٹرسٹ ہسپتال کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ نیہا نذیر کے دادا چوہدری نذیر احمد نہ صرف فیصل آباد بلکہ قومی سطح پر جانا پہچانا سیاسی نام ہیں اور ان کے خاندان کا فیصل آباد میں بڑاوسیع ٹیکسٹائل اور ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہے۔ نیہا نذیر بیرون ملک سے تعلیم یافتہ ہیں، انہوں نے اکنامکس اور پولیٹکل سائنس میں گریجوایشن کی ڈگری میکگل یونیورسٹی کینیڈا سے حاصل کی جب کہ ایم ایس سی کی ڈگری سپلائی چین اور لاجسٹکس مینجمنٹ میں برطانیہ کی واروک یونیورسٹی سے حاصل کی۔ رابعہ ٹرسٹ ہسپتال میں محترمہ نیہا نذیر سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا چونکہ ان کا تعلق فیصل آباد کے بڑے ٹیکسٹائل کے گھرانے سے تھا، انہیں کہا گیا کہ اب آپ کی تعلیم مکمل ہو گئی ہے تو آپ اپنی فیملی کا کاروبار میں ہاتھ بٹائیں۔ لیکن انہوں نے کاروبار کی بجائے سماجی سرگرمیوں کو اپنے لئے چنا تا کہ غریبوں اور ضرورت مندوں کے کام آ سکیں جس سے ان کی زندگی میں آسانی پیدا ہو۔ سماجی خدمت کے جذبے سے سرشار نیہا نے اپنے خاندان کے فلاحی ادارے رابعہ ویلفئیر ٹرسٹ ہاسپٹل سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ دیگر سماجی خدمات میں نوجوان سماجی کارکن اپنے کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کے مسائل میں گہری دلچسپی لیتی ہیں۔ اداروں کارکن ورکرز کے بچوں کی شادی بیاہ، تعلیم اور ان کو دیگر درپیش مسائل میں ان کی مدد کرنے کے لئے ہر لمحہ پرجوش رہتی ہیں۔ ان کے اس جذبے کو دیکھتے ہوئے ان کا خاندان بھی اس میں ان کے ساتھ ہر وقت مددگار رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا ان کے فلاحی کاموں میں انہیں اپنے گھر سے ہر طرح کی مدد میسر رہتی ہے جس سے ان کا کام اور آسان ہو جاتا ہے۔

نیہا نذیر کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں عام طور پر کامیاب انسان اسے سمجھا جاتا ہے جو معاشی لحاظ سے نہایت آسودہ حال ہو اور اس کے قبضۂ قدرت میں کسی بھی انسان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہو۔ کامیابی کا تصور نہایت عمومی نوعیت کا ہے ورنہ حقیقی کامیابی تو وہ ہے جس سے اجتماعی سطح پر کوئی مثبت تبدیلی رونما ہو۔ کوئی ایسا کام یا تخلیق کی جائے جس سے پوری انسانیت کی فلاح کا سامان ہو سکے۔ ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ان اہداف کو پیشِ نظر رکھ کر کی ہی نہیں جاتی۔ ہماری درسگاہوں میں نوجوان کلرکی یا افسری کے لئے تیار کئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ امر خوش آئند ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے حوصلے اب تک ماند نہیں پڑے ان کا یقین نہیں دھندلایا ہے اور وہ ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپنے لئے حقیقی کامیابی کا راستہ تراشنے کی کوششوں میں مشغول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کامیابی صرف محنت اور دیانت داری سے ہی ملتی ہے، چاہے راستہ کتنا ہی پر خطر اور طویل کیوں نہ ہو۔

معاشرے میں عورتوں کے مقام اور کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آج عورتوں کے حقوق اور ان کے سماجی مناصب کا تعین تقریباً ہو گیا ہے۔ عورتوں کو نہ صرف شب و روز کی زندگی اور اس کی سرگرمیوں کا حصہ بنایا گیا بلکہ اسے معاشرے کا ایک اہم ستون گردانا گیا جس سے ایک صالح معاشرے کے خد و خال وضع ہو سکے۔ عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر مرحلے کے طے کرنے میں اپنی بھر پور صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ اسلام نے معاشرتی زندگی میں عورت کی شرکت کی یہ فلاسفی رکھی کہ اس کے تعاون اور اشتراک سے سماجی زندگی میں آسانی پیدا ہو گی۔معاشرتی زندگی میں عورت مرد کی شرکت کا محرک وہ نکتہ ہے جو اسے بہت سارے میدانوں میں کام کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس کو مختلف و متنوع تجربات سے ہم کنار کرتا ہے اور اس کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ بات مکمل صورت میں اس وقت سامنے آئے گی جب ہم معاشرتی زندگی میں عورت کی شرکت کے بقیہ محرکات جیسے علم،حفظانِ صحت، عدلیہ، سیاست اور دیگر معاشرتی سرگرمیوں میں ان پر اعتماد کر پائیں گے اوران کی شرکت کو یقینی بنائیں گے۔ عورت کی معاشرے کے عملی میدان میں عدم شرکت کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم انہیں کمزور دائرے میں محدود کر رہے ہیں۔