ملک تباہ کردیں کچھ نہیں ہوتا، صرف ایک غلطی تاحیات نااہل کردیتی ہے،پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں: چیف جسٹس

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سات رکنی بینچ ارکان پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

 

لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان شامل جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔

 

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’الیکشن سے متعلق تمام کیسز آئندہ ہفتے ریگولر بنچ میں مقرر ہوں گے۔ ارکان پارلیمان کی باہمی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس میں انفرادی لوگوں کے مقدمات نہیں سنیں گے۔‘

 

انھوں نے کہا کہ ’انفرادی لوگوں کے الیکشن معاملات آئندہ ہفتے سنیں گے۔ ہو سکتا ہے تب تک ہمارا اس کیس میں آرڈر بھی آ چکا ہو۔‘

 

ارکانِ پارلیمان کی تاحیات نااہلی سے متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ ’ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جزو تک محدود کیوں کر رہے ہیں۔ ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں۔

 

انھوں نے ریمارکس دیے کہ ’آئین پر جنرل ایوب سے لے کر تجاوز کیا گیا۔ مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟

’ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہو جاتا ہے۔‘

 

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نااہل؟ صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں۔‘

 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاا ہم نے نااہلی کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا لیکن کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، ملک تباہ کردیں کچھ نہیں ہوتا،کاغذات نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہل کر دیتی ہے۔

 

ان کا کہنا تھا ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز اور اس کی زبان تک محدود کیوں کر رہے ہیں ؟ ہم آئینی تاریخ کو ، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں؟ مخصوص نئی شقیں داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ صرف ایک جنرل نے 62 ون ایف کی شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟

 

 

جسٹس منصور علی شاہ نے جہانگیر ترین کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟ وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی، ڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ کے فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاحیات ختم نہیں ہوتا، کامن لاء سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلیٹی بل بقایا ہو اور وہ ادا ہو جائے تو وہ اہل ہو جاتا ہے۔

 

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف انتخابات سے پہلے لگ سکتا ہے یا بعد میں بھی لگ سکتا ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ملا کر دیکھیں تو انتخابات سے پہلے ہی نااہلی ہوتی ہے۔

 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ دیکھیں کہ 62 ون ایف کی نااہلی جیسی ترامیم کب لائی گئیں؟ آئین میں اس قسم کی ترامیم ایوب خان کے دور میں شروع ہوئیں اور آگے چلتی گئیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

 

تاحیات نااہلیچیف جسٹسسپریم کورٹغلطی