لاکھ بار کہیں الیکشن منصفانہ ہونگے لاکھ بار کہیں انتخابات منصفانہ ہوئے ہیں ”تتے“ توے پر بھی بیٹھ جائیں کوئی نہیں مانے گاجب بھی عام انتخابات ہوتے ہیں جوڑ توڑ کے ماہرمیدان میں آ جاتے ہیں بوریوں کے منہ کھل جاتے ہیں چھانگا مانگا اورمری کی سیاست پھر شروع ہو جاتی ہے، ملک میں ہونے والے انتخابات میں چند خاندان اپنے غلاموں کا چنائو کرتے ہیں، حالانکہ پاکستان جاگیر داروں، وڈیروں کیلئے نہیں بنا تھا لیکن یہاں و ہ براجمان ہوگئے جو انگریزوں کی چاکری کرتے تھے، قائد اعظم کی قیادت میں لاکھوں مسلمانوں نے ملک کے لیے قربانیاں دیں، پاکستان بنانے کا مقصد یہاں اسلامی نظام کا نفاذ تھا جو دفن کر دیا گیا، 76 برس ہو گئے اسلامی نظام کے نفاذ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، 35 سال ڈکٹیٹروں اور نام نہاد سول جمہوری حکومتوں نے ضائع کر دیے جس پر ملکی معیشت تباہ ہوئی، سودی نظام جاری رہا، تعلیم، صحت کے شعبوں کا حلیہ بگاڑ دیا گیا، اداروں کو مکمل ناکام بنایا گیا، دوسری طرف غیر سیاسی ادارے سیاست میں ٹانگ اڑاتے رہے اور اڑاتے چلے آ رہے ہیں؟ جس کی وجہ سے سسٹم کا ستیا ناس ہوا، اب ایک بار پھر سیاسی جوڑ توڑ میں تیزی آ گئی ہے مسلم لیگ ن ایم کیو ایم اور استحکام پاکستان پارٹی میں منگنی ہو گئی ہے 8 فروری تک رخصتی بھی ہو جائے گی جس کے بعد سیاست کے جیرے بلیڈ ایک بار پھر اسلام آباد پر قبضہ کر لیں گے اور عوام کے حصے میں حسب معمول صرف محرومیاں ہی آئیں گی بلاول پی ڈی ایم کے دور میں وزارت خارجہ کے مزے لینے کے بعد اپنی دھن میں مگن ہے زرداری جال کترنے کیلئے کچھوے کی چال چل رہا ہے اب دیکھتے ہیں لیول پلیئنگ فیلڈ کسے ملتی ہے؟ جنوبی ایشیا میں اہمیت رکھنے والے تین ملک 2024 میں قومی انتخابات کے معرکے میں داخل ہو رہے ہیں پاکستان میں نواز شریف، بھارت میں مودی اور بنگلہ دیش میں حسینہ واجد وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہیں، نواز شریف چوتھی، نریندر مودی تیسری اور حسینہ واجد 6ویں ٹرم کیلئے میدان میں سرگرم ہیں، حسینہ واجد اور نریندر مودی کے اقتدار کا تسلسل ان کے ملکوں میں مضبوط جمہوریت کا عکاس ہے، پاکستان میں کبھی جمہوریت آ نہ سکی جس کی وجہ سے حالات بد سے بد تر ہو تے گئے، ان تینوں ممالک میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز بھی ہوچکا ہے ان میں بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت شامل ہیں، ان ملکوں میں دلچسپی کی ایک قدرے مشترک یہ بھی ہے کہ تینوں ملکوں میں ہی وزارت عظمیٰ کے امیدواروں میں وہ شخصیات شامل ہیں جو اس وقت وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں یا ماضی میں رہ چکی ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کیوں نہ پنپ سکی جمہوریت کے نام بھی آمریت ہی رہی جو صرف چند سیاسی خاندانوں کا ہی اوڑھنا بچھونا رہی اسی وجہ سے اداروں کو بھی کبھی کبھی مداخلت کرنا پڑی اور نام نہاد جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہر جمہوری دور میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا ،حکمرانوں کے نام سوئس اکائونٹ، پنڈورا پیپرز اور پاناما لیکس میں آئے، توشہ خانہ تک کو نہ بخشا گیا، نمانے حکمرانوں نے قرضے لے کر ہڑپ کیے، اپنی مراعات اور پروٹوکول جاری رکھا اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے غریب عوام کابجلی بلوں، گیس بلوں کے نام پر خون نچوڑا گیا، آج ملک میں صرف انصاف طاقتور کیلئے ہے جوعدالتوں کو بھی آنکھیں دکھاتا ہے، حکمرانوں نے قوم کو آئی ایم ایف کی غلامی کی ایسی ہتھکڑیاں پہنائیں ہیں کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہیں ٹوٹیں بھی کیسے قرض لینے والے ہی قرض ہڑپ کرتے ہیں یہ امریکا کے وفادار تھے اور ہیں، آنے والے انتخابات میں سیاست پر راج کرنے والے سیاسی خاندان پھر عوام کو چکنی چپڑی باتوں سے اپنے شکنجے میں قید کر رہے ہیں اگر عوام چنائو کا فیصلہ ضمیر کے مطابق کریں تو 2024ء کا الیکشن انصاف و قانون کی بالادستی، غربت کے خاتمے، مہنگائی، بے روزگاری سے جان چھڑانے کے لیے اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، قوم اپنی تقدیر کا فیصلہ کرے گی پاکستان میں حکمرانوں نے عوام کیلئے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ترین بنادی ہے، اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ یوٹیلٹی بل ادا ہو رہے ہیں نہ کھانے کو مل رہا ہے، ایک مشہور قصہ ہے کہ فارس میں ایک بادشاہ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بن گیا، اس نے آتے ہی باپ کی بنائی کابینہ میں ردوبدل کردیا، ایک سابق وزیر انتہائی ذہین و فطین اور تجربہ کار تھا، بادشاہ نے اس سے بھی وزارت چھین لی، کئی لوگوں نے اس وزیر کیلئے بادشاہ سے سفارش کی لیکن بادشاہ نہ مانا، اس کا کہنا تھا، اس شخص میں کوئی صلاحیت نہیں ہے، میرے باپ نے اسے نہ جانے کیوں وزیر بنایا تھا، اصرار مزید بڑھا تو بادشاہ نے ایک شرط رکھی کہ میں وزیر سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر اس نے صحیح جواب دے دیا تو میں اسے کابینہ میں لے لوں گا، سب لوگ مان گئے، سابق وزیر کو بلایا گیا، بادشاہ نے اس سے پوچھا، یہ بتائو فطرت غالب رہتی ہے یا ادب؟ وزیر نے جواب دیا، ادب ایک مصنوعی چیز ہے جبکہ فطرت اصل چیز ہے یہ کسی بھی وقت ادب پر غالب آجاتی ہے، بادشاہ کو جواب پسند نہ آیا، وہ اسے سب کے سامنے رسوا کرنا چاہتا تھا، اس نے وزیر کو اگلے دن کھانے پر بلوایا، دوسرے دن جب دربار سج گیا، دسترخوان بچھ گیا تو بلیاں شمعیں اٹھاتی ہوئی آئیں اور دسترخواں کے گرد جمع ہو گئیں، بادشاہ نے فخریہ انداز میں سابق وزیر سے پوچھا، یہ بتائو ،کیا ان بلیوں کے باپ شمع ساز تھے یا ان کی مائوں نے یہ کام کیا تھا؟ سابق وزیر نے کہا بادشاہ سلامت آپ مجھے کل تک کی مہلت دے دیجئے، میں عملی جواب دوں گا، بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے، دوسرے دن ایک بار پھر دسترخوان بچھایا گیا، بلیاں شمعیں اٹھائے دستر خواں کے گرد جمع ہو گئیں، سابق وزیر نے آستین کو جھٹکا تو اس میں سے ایک چوہا نکلا، بلیوں نے جیسے ہی چوہے کو دیکھا، سب اس کی طرف لپکیں، ادب آداب قصہ ماضی بن گئے، شمعیں دربار میں گر پڑیں، افراتفری مچ گئی، یہ دیکھتے ہوئے سابق وزیر نے کہا، بادشاہ سلامت! آپ نے دیکھا، فطرت کیسے غالب آگئی جب بلیوں کو چوہا نظر آیا تو وہ ادب آداب بھول گئیں، یہ سن کر بادشاہ نے ہار مان لی اور وزیر کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا، بے شک فطرت غالب رہتی ہے، ادب آداب وقتی ہوتے ہیں، اس کا اندازہ انتخابی مہم میں سیاست دانوں کے لب و لہجے سے ہو رہا ہے، مزید اندازہ انتخابات کے بعد ہو جائے گا جس طرح موقع ملتے ہی بلیوں نے ایک چوہے کو دیکھ کر اپنی اصلیت ظاہر کر دی تھی بزرگوں کو بھی یہ کہتے سنا ہے کہ اگر سنو پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے تو یقین کرلینا مگر کسی کی فطرت بدل گئی ہے، اس کا یقین کبھی مت کرنا کہ عادات بدل سکتی ہیں فطرت نہیں، ان سیاستدانوں کی فطرت بھی بلیوں سے کم نہیں جو اپنے مفاد کیلئے مل بیٹھتے ہیں اور الیکشن میں نظریں پھیر کر ایک دوسرے کیخلاف زہر اگلتے ہیں۔