دل دیجئے دلربا کو ووٹ شمس الدین کو

انتخابات ہمارے معاشرے کا ایک جمہوری، سیاسی، سماجی، ثقافی اور روایتی حصہ بن چکے ہیں۔ یہ عوامی رائے کے اظہار کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عارضی ہیجان پید اکر کے عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کے بہت سے طریقے وجود میں آ چکے ہیں۔
کہتے ہیں کہ انگریزی دور حکومت میں جب میونسپل کارپوریشن کا نظام متعارف کرایا گیا تو لکھنؤ میں پہلی بار انتخابات کامیدان سجایا گیا۔ لکھنؤ رقص و موسیقی اور زبان دانی اور ادب آداب میں ایک روایتی حیثیت رکھتا ہے جہاں شیر خوار بچے کو بھی آپ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ رقص و موسیقی کو جب سماجی مرتبے کا بینچ مارک تصور کیا جائے تو عزت و تقدیس ناچنے والوں کے حصے میں آتی ہے اس الیکشن میں لکھنؤ کی مشہور طوائف اور محفل رقص و سرور کا فخر اور معاشرے کا رول ماڈل دلربا جان نے حصہ لینے کا اعلان کر دیا اور لکھنؤ کے علاقے چوک کے حلقے سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے۔ دلربا جان کی مقبولیت اور ڈیمانڈ کا یہ عالم تھا کہ کوئی اس کے مقابلے میں الیکشن میں کھڑا ہونے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ لیکن معاشرے کا درد رکھنے والے کچھ لوگ تھے جو دلربا جان کی قیادت سے علاقے کو بچانا چاہتے تھے ان کی نظر انتخابات شہر کے چوٹی کے طبیب حکیم شمس الدین پر پڑی جو اپنی نیک نامی اور سماجی خدمات کے لیے مشہور تھے مگر سیاست سے انہیں دلچسپی نہ تھی۔ دوستوں نے منت سماجت کر کے حکیم صاحب کو دلربا جان کے مقابل آنے پر آمادہ کر لیا۔ دونوں طرف سے الیکشن مہم شروع ہو گئی۔
دلربا کے جلسوں میں دل والوں کی بھرمار ہوتی تھی رقص و سرور کی محفلیں ہوتیں جہاں دلربا کی ساتھی پری چہرہ رقاصائیں ووٹرز کا دل بہلاتی تھیں اچھا خاصا گلیمر پیدا ہو گیا تھا اگر دلربا نہ ہوتی تو یہ سب نہ ہوتا۔ دوسری طرف دلربا مخالف کیمپ یعنی حکیم شمس الدین کے جلسے میں چند لوگ ہوتے تھے آخر کار حکیم صاحب کے سپورٹران کو ایک ترکیب سوجھی انہوں نے پورے شہر میں بینر لگا دیے جن پر ایک شعر لکھا تھا:
ہے گزارش شہر کے ہر ووٹر شوقین کو
دل دیجئے دلربا کو ووٹ شمس الدین کو
ایک دفعہ شہر میں دھوم مچ گئی کہ حکیم صاحب نے چھکا لگا دیا ہے مگر اگلے دن پورے شہر میں دلربا کی طرف سے بینر لگے تھے جن پر وہی شعر معمولی ترمیم کے ساتھ کچھ یوں لکھا ہوا تھا
ہے گزارش شہر کے ہر ووٹر رنگین کو
ووٹ دیجئے دلربا کو نبض شمس الدین کو
یہ شرفاء اور تماش بینوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ تھا جب الیکشن کا رزلٹ آیا تو سب کے لیے حیران کن تھا کیونکہ حکیم شمس الدین الیکشن جیت چکے تھے۔ اب لکھنؤ کی روایات کے مطابق دلربا جان نے حکیم صاحب کو مبارکباد دینے کے لیے ان کے گھر تشریف لے جانے کا فیصلہ کیا۔ دلربا نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس الیکشن سے کم از کم ایک بات ثابت ہو گئی ہے کہ لکھنؤ میں مرد کم اور مریض زیادہ ہیں۔
لکھنؤ کا یہ تاریخی الیکشن یہ ثابت کرتا ہے کہ الیکشن ریلیوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ سارے آپ کو ووٹ دیں گے۔ جو گلیمر دلربا نے مصنوعی مقبولیت اور رقص و سنگیت سے پیدا کیا تھا آج اس کی جگہ کوک کی بوتل اور بریانی کی پلیٹ نے لے رکھی ہے جو نہایت المناک ہے۔ جدید دور کے پراپیگنڈا Tools اتنے طاقتور ہیں کہ دلربا اگر آج زندہ ہوتی اور پاکستان میں الیکشن لڑتی تو شاید جیت جاتی کیونکہ آج کے دور میں ووٹرز کی اکثریت جلسوں میں ہوا کا رخ دیکھ کر ووٹ کا فیصلہ کرتی ہے۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد آبادی کے پاس مجموعی وسائل کا صرف 20 فیصد ہے جبکہ بقیہ 20 فیصد جو امراء اور اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے ملکی مال و زر کے 80 فیصد حصے پر قابض ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا ایلیٹ سرکل ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آپس میں مقابلہ کرتا ہے تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسی سرکل سے بنی ہیں ان سب کی کلاس ایک ہی سارا اختلاف اپنی اپنی باری اور اپنے فائدے کے لیے ہوتے ہیں یہ 80 فیصد آبادی کو خوشحالی کے سبز باغ دکھا کر انہیں لوٹ لیتے ہیں۔ اس ایلیٹ سرکل میں سیاستدان، جاگیردار، سرمایہ دار، علمائی، صحافی، جرنیل ، جج سب شامل ہیں۔ جن کا مفاد اسی میں ہے کہ status quo اسی طرح جوں کا توں چلتا رہے۔ ان میں سے جب ایک اقتدار حاصل کرتا ہے تو باقی سارے اُسے ہٹا کر اپنے لیے اقتدار کی کوشش کرتے ہیں تا کہ طاقت اور مراعات کے سرچشموں کا رخ ان کی طرف ہو جائے یہ کھیل اسی طرح جاری ہے۔
آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ پاکستان کا آئین برطانوی آئین کا چربہ ہے جس میں ضرورت اور فائدے کیلئے حسب ضرورت اور حسب ذائقہ تبدیلیاں کر کے اُسے آئین پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔ اب برطانوی آئین میں کوئی بھی امیدوار صرف ایک حلقے سے انتخاب لڑ سکتا ہے یہی جمہوری تقاضا ہے اس آئین میں آمیزش کر کے انڈیا میں دو حلقوں سے انتخاب کو آئینی شکل دی گئی جبکہ بنگلہ دیش میں آپ زیادہ سے زیادہ تین جگہوں سے انتخاب لڑ سکتے ہیں لیکن آئین پاکستان میں بڑی وسعت ہے یہاں کوئی ایک امیدوار ملک کے سارے کے سارے حلقوں سے بھی کھڑا ہونا چاہے تو اس پر پابندی نہیں ہے بس پیسہ ہونا چاہیے۔
پاکستان کی پاور پالیٹیکس کی ساخت ایسی ہے کہ کوئی عام آدمی یا مڈل کلاس کا کوئی امیدوار اس میں اول تو حصہ ہی نہیں لے سکتا اور اگر اتنی جرأت کر بھی لے تو جیت نہیں سکتا یہ سارا پیسے کا کھیل بن چکا ہے۔ آئین ہمارے بڑے بڑے قومی لیڈروں کی سہولت کاری کرتا ہے کہ وہ بیک وقت کئی کئی حلقوں سے انتخاب لڑیں اور ہر حالت میں کہیں نہ کہیں سے جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچیں اور وہاں ساری ایسی قانون سازی کریں جو ان کے مفادات کو دوام بخش سکے یہاں مفادات سے ٹکراؤ کا قانون حرکت میں نہیں آتا۔
ایک امید وار کا کئی کئی حلقوں سے کھڑے ہونا ویسے ہی جمہوریت کی بنیادی روح کے خلاف ہے لیکن یہ قانون صرف اس لیے تبدیل نہیں کیا جا تا ہے کہ پارٹیوں کے بڑے بڑے سیاستدان میں سے کوئی اسمبلی میں پہنچنے سے رہ نہ جائے۔
جب بھی الیکشن آتا ہے پاکستان میں بلیک منی یا کالا دھن کا سارا پیسہ حرکت میں آجاتا ہے معاشی سرگرمیاں تیز ہو جاتی ہیں۔ غربت میں کمی آتی دکھائی دیتی ہے۔ کیٹرنگ، ٹرانسپورٹ اور بہت سے دیگر شعبے بڑے جوش و خروش سے کام کرتے ہیں بے روزگاری میں کمی آجاتی ہے۔ ترقیاتی اخراجات میں تیزی آجاتی ہے گزشتہ حکومت نے اعتماد کا ووٹ دینے والے ہر رکن پارلیمنٹ کو ترقیاتی اخراجات کے نام پر ایک ایک ارب روپے کی گرانٹ دی ہے۔ یہ سارے لوگ اسی فنڈز کی بندر بانٹ سے اپنے انتخابی اخراجات بھی پورے کریں گے اور ہر سڑک اور سیوریج کے عوض مقامی لوگوں سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کر ووٹ اور حمایت کو یقینی بنایا جائے گا یہ سب ہماری ماضی کی سیاسی روایات کا حصہ ہے اس انجینئرنگ کا سب سے زیادہ اور پرانا تجربہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ہے جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے اسے گزشتہ الیکشن میں ٹکٹ منی کے نام پر سب سے زیادہ فنڈ جمع کرنے کا ریکارڈ حاصل ہے۔