سچ… خوشبو کا مرغولہ ہے اور جھوٹ بدبودار بھبھکا۔ بتایا گیا ہے کہ سچ بولتے بولتے انسان سچوں میں شمار ہو جاتا ہے، اور انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا نام جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ احادیث میں یہ بھی درج ہے کہ جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو فرشتے اس کی جھوٹ کی بُو سے اُس سے دور ہو جاتے ہیں۔ قرینِ فہم ہے، کہ فرشتہ نور سے مرکب ہے، جھوٹ کی بساند خوشبو کی پُر نور فضا کو دور کر دیتی ہے۔
سچ فطرت میں روشنی، ہوا اور پانی کی طرح پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ جھوٹ ’’ایجاد‘‘ کرنا پڑتا ہے، فیبریکیٹ کرنا پڑتا ہے۔ جھوٹ کے لیے سچ کو جھٹلانا پڑتا ہے، یعنی کسی معلوم اور موجود حقیقت کی نفی کرنا ہوتی ہے۔ سچ اور سچا انسان فطرت کے گہوارۂ معصومیت میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ شومئی قسمت، ایک جھوٹا انسان آتا ہے اور سچے کا انکار کر دیتا ہے۔ یہاں سے جھوٹ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جھوٹ کو قائم رکھنے کے لیے مسلسل جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ سچ ہے۔ جھوٹ کی آنکھیں بھی نہیں ہوتیں … اس لیے جھوٹ کے مقدر میں مشاہدہ نہیں ہوتا۔ جھوٹ کے صرف کان ہوتے ہیں … اس لیے سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے پر مجبور ہے۔ جھوٹ کی یادداشت بھی نہیں ہوتی ہے۔ آج کا جھوٹ گزشتہ جھوٹ کو جھٹلا دیتا ہے۔ پس! یاد رکھنا چاہیے کہ جھوٹ کا تعلق جھٹلانے سے ہے۔ جو شخص جھٹلانے میں ماہر ہوتا ہے، وہ جھوٹوں کا سردار ہوتا ہے۔ یہی حال کفر کا ہے۔ صاحبِ ایمان پہلے سے موجود ہوتا ہے، اپنے ایمان اور صاحب کو جھٹلانے کے بعد انسان کفر میں داخل ہوتا ہے۔
سچ کو حق بھی کہا گیا ہے۔ حق سچ مترادف الفاظ ہیں۔ حق کو ’’ھُوالحق‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ حق کے ساتھ اسمِ اشارہ موجود ہے۔ گویا حق کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ سورج کی طرف دیکھا نہیں جا سکتا ہے، اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ سچ اور سچائی، حق اور حقیقت، رب اور ربوبیت ایک غیر محسوس طریق پر باہم یوں ملے ہوئے ہیں جیسے سورج اور سورج کی روشنی۔ سورج کی روشنی کو سورج سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لگتا ہے، یوں ہی حق اور خلق بھی باہم خلط ملط ہیں۔ اِسے جدا کرنے کی سعی کرنے والا ایک سعیِ لاحاصل میں مبتلا ہے۔ ذی دانش اِس جہان میں جہاں برہانِ حق دیکھ لیتے ہیں، وہیں سر جھکا دیتے ہیں۔
میں پیراں تے سر سٹیا، میں چھڈے سب جنجال
سچ معصوم ہوتا ہے۔ معصومیت کی حفاظت
فطرت کے ذمے ہے۔ کائناتی قوتیں سچ کی حفاظت پر مامورہیں۔ جھوٹ تند و تیز اور چالاک ہوتا ہے۔ اسے اپنی حفاظت کے لیے ٹھیکری پہرے پر خود ہی بیٹھنا ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سچ اَز خود یاد رہتا ہے۔ جھوٹ بھول جاتا ہے۔ ثابت ہوا، سچ کا تعلق یاد سے اور جھوٹ کا غفلت سے! سچ نظر ہے… جھوٹ فریبِ نظر!! سچ … ایک صاف شفاف بہتے ہوئے پانی کی طرح ہے۔ پانی علم کی علامت ہے … زندگی کی اساس ہے۔ پانی کا مرکز و منبع سمندر ہے۔ کڑوا ہے لیکن حقیقت ہے … ’’الحق مرّْ۔‘‘ پانی … کی جو بھی صورت ہے … قطرہ، دریا، شبنم، آنسو … سب صورتیں سُوئے قلزمِ وحدت محوِ سفر ہیں۔ اپنے مرکز و منبع کی طرف لوٹنے کی طلب اور تمنا اس کے پانی ہونے کی دلیل ہے۔ جزو کا اپنے کل کے ساتھ وصل کی تمنا ہی جزو کا جزو رہنے کا جواز ہے۔ اپنے مرکز سے راجع ہونے سے گریز کرنے والا اپنے ہونے کا جواز کھو بیٹھتا ہے۔
صحرائے طلب میں اگر راہرو اپنے راہبر سے اعراض کرنے لگے تو وہ پانی کی طلب میں پانی کے بجائے کسی سراب کی طرف جا نکلتا ہے۔ عجیب بات ہے، سراب کے پیچھے بھاگنے والا بھی اپنی بھاگ دَوڑ ترک نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے، کل میں غلط تھا، آج صحیح ہوں … بس! اپنے صحیح ہونے پر اصرار، اسے حقیقت کے نام پر حقیقت سے فرار ہونے کی مسافرت میں مبتلا کیے رکھتا ہے۔ سرابوں کی یہ دلفریب دنیا اُس کا دل بہلائے رکھتی ہے، وہ سچ کے معاملے میں خود کو خودکفیل سمجھنے لگتا ہے اور اپنی کفالت کرنے والوں سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔
حکم ربی ہے: ’’کونو مع الصادقین…‘‘ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ یہ حکم کہنے اور سننے میں جتنا مختصر اور سادہ ہے، عمل پیرا ہونے میں عمر بھر کا سودا ہے۔ سچوں کے ساتھ ہونے میں، سچوں کا ساتھ دینے میں، اپنے جھوٹ کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اپنے جھوٹ سے توبہ کرنا آسان نہیں۔ انسان اپنے جھوٹ کو اپنی اَنا کا حصہ بنا چکا ہوتا ہے۔ اپنے جھوٹ کو پختہ کرنے کے لیے اپنی عقل کی مدد سے ہزاروں دلیلیں گھڑ چکا ہوتا ہے۔ اب اِس بتکدۂ تصورات کو پاش پاش کرنے کے لیے اُسے مقامِ ابراہیم کو مصلّیٰ بنانا ہوتا ہے۔ ابراہیمی مسلک پر چلنے والا نارِ عشق میں کود جانے میں ذرا سا بھی توقف نہیں کرتا۔ وہ حرم تعمیر بھی کرتا ہے اور اپنے دل کا حرم پاک بھی کرتا ہے۔ شانۂ پیغمبری پر نعرۂ حیدری بلند ہوتا ہے اور جھوٹی اَناؤں کے نصب کردہ لات و منات گرا دیے جاتے ہیں۔
سچ دیدۂ بینا ہے … سچ دیکھتا بھی، سنتا بھی ہے اور پھر کلام بھی کرتا ہے۔ سچ کی بصارت با بصیرت ہے … سچ کی سماعت بااَدب ہے، سچ کا کلام عوام کی عقول کے مطابق ہے …! سچ غیب سے سنتا ہے اور شہود میں کلام کرتا ہے۔ بہرطور سچ، سچوں کے ہمراہ ہے۔ سچ کی منزل کسی سچے تک رسائی ہے۔
سچے کی ہمراہی بیک وقت آسان بھی ہے اور مشکل بھی! آسان اِن معنوں میں کہ راہ میں رہ جانے کا، اسباب کے لُٹ جانے کا خوف و خطر نہیں رہتا۔ سچ کا راستہ، یعنی کسی سچے کی ہمراہی کا راستہ، دشوار گزار بھی ہے، وہ اس طرح کہ سچوں کے ساتھ چلنے کے لیے اِن ہی کا ترتیب دیا ہوا نصابِ زیست اپنانا ہوتا ہے۔ سچوں کا نصاب دنیا کے نصاب سے الگ ہوتا ہے۔ یہاں عجز میں عزت بتائی جاتی ہے، تقسیم کرنے کو جمع کرنے پر فوقیت دی جاتی ہے، بات منوانے کے بجائے بات ماننے کی بات کی جاتی ہے، تعلقات کی دنیا میں ظالم بننے کے بجائے مظلوم بننے پر ترجیح دی جاتی ہے، شہرت کے بجائے گوشہ گمنامی کو گوشۂ عافیت بتایا جاتا ہے۔ عجز، انکسار، اخلاق اور تکریمِ انسان اس نصاب کے بنیادی اسباق ہیں۔ الغرض سچوں کا نصابِ زیست دنیا کے نصاب سے بالکل اُلٹ ہوتا ہے۔ اِس الٹی وا کی دھار پر چلنے والے، بڑے باہمت لوگ ہوتے ہیں … یہ ساحل سے دور ہوتے ہیں … ڈوب جاتے ہیں … یہ اپنے صاحب کے اَمر کے ساتھ چلتے ہیں اور پھر اَمر ہو جاتے ہیں۔ سچوں کی دنیا من کی دنیا ہے، ماورائے سُود و زیاں ہے … جھوٹوں کی دنیا تن کی دنیا ہے، مجموعہِ سُود و زیاں ہے۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے: ’’سچ کی تعریف مشکل ہے، ہاں! سچے کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ سچ وہ ہے، جو سچے کی زبان سے نکلے‘‘۔ سبحان اللہ! کیا ہی سچی بات نکلی ہے، مرشد کی زبان سے! سچ اور جھوٹ کے relative ہونے، ہر قوم قبیلے اور مزاج کا اپنا اپنا سچ ہونے کا بت پاش پاش ہوا۔ لات و منات اپنی اپنی قوم کے ہوتے ہیں … سچ صرف سچے کا ہوتا ہے … اور سچا سب کا ہوتا ہے … سب کے لیے ہوتا ہے … انسانیت کے باب میں وہی کامل ہے جو سچ میں کامل ہے۔ کائنات کا سب سے سچا انسان ہی انسانِ کاملؐ ہے۔ وہ سب کے لیے ہے … کل عالمین کے لیے … کسی ایک قوم قبیلے، خطے یا دَور کے لیے نہیں … وہ سب کے لیے ہے … وہ کل عالمین کے لیے ہے … کل عالمین کے لیے رحمت، ہدایت، شفا اور شفاعت!!