طوافِ کوئے ملامت کو…

فتنہ دجال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ڈرایا، صحیح احادیث کے حوالے سے ہر آنے والا دن اسے قریب آتے دیکھ، دکھا رہا ہے۔ منکرینِ حدیث کے سوا اس کا انکار اہلِ ایمان نے کبھی نہیں کیا۔ (خود کو دین، دینی علوم، علم حقیقی سے فارغ کر بیٹھنے والوں کا معاملہ دوسرا ہے۔) فتنہ عالمگیر ہوگا… دجال یہودی ہوگا۔ یہ ہمارا موضوع نہیں۔ مقصود صرف حالیہ عالمگیر سطح پر دنیا کو متاثر کرنے والی مہیب جنگ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ دنیائے کفر میں اہلِ غزہ کے لیے محبت، شدتِ احساس، غم خواری، جذباتیت اور ولولہ دم بخود کر دینے والا ہے۔ اس کے برعکس سرکردہ مسلم ممالک گونگے کا گڑ کھائے، گونگے شیطان بنے بیٹھے ہیں، خونِ مسلم کی ارزانی پر۔ ایٹمی پاکستان، جو امت میں ہمیشہ مرکزی حیثیت رکھتا رہا، آج صرف پچھلی صفوں میں بیٹھا امریکا، اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کا منہ تکتا ہے۔ بیانات اتارچڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں، آقاؤں کے مزاج کی برہمی کے خوف سے۔ یاد رہے کہ دنیا میں یہ دو نظریاتی ممالک پاکستان اور اسرائیل وجود میں آئے۔ پاکستان، پاکیزہ کلمے کی بنیاد اور شبانہ روز جدوجہد کے نتیجے میں۔ یہ اسلام کا قلعہ تھا۔ قلعے عیش وعشرت، رنگ رلیوں، لوٹ کھسوٹ، طرب ونشاط کے لیے نہیں بنائے جاتے۔ اعلیٰ تر مقاصد، نظریاتی تحفظ اور بقا کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اسرائیل دوسرا ملک تھا جو یہودیت کے نام پر غاصبانہ قبضے اور حقیقی وارثانِ زمین پر (غزہ جیسی ہی) قیامت برپا کرکے قاتل جتھوں کے ذریعے لوٹ کھسوٹ سے بنا۔ پاکستان امت مسلمہ کی امیدوں اور امنگوں کا مرکز اور اسرائیل پوری دنیا میں بکھرے یہودیوں کا ملک ٹھہرا۔ اسرائیل کی نظریاتی استقامت اور عزم کا تو یہ عالم تھا کہ شر وظلم کا ہر حربہ روا رکھ کر دنیا کے کسی گوشے سے یہودی آجاتا تو فلسطینی کا گھربار نوچ کر اس کے حوالے کیا جاتا۔ ایئرپورٹ پر قدم رکھتے ہی اسرائیلی شہریت کا بوسہ اس کے پاسپورٹ پر ثبت ہو جاتا ہے۔ آج بھی یہودیوں کی آبادکاری جاری وساری ہے۔ یہودی دہری شہریتوں کے حامل ہیں۔ امریکا، برطانیہ، (مشرقی، مغربی)یورپ وغیرہ کی جنم بھومیوں، آماجگاہوں کے ساتھ وہ اسرائیلی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ ایک گھر یہاں ایک گھر وہاں، چپڑی اور دو، دو! فلسطینی غزہ کے اندر بھی دربدر۔ انہیں یہودیت، صہیونیت کے نظریے نے باقی پوری دنیا سے بے نیاز کر رکھا ہے۔ امریکا برطانیہ کا دستِ شفقت سر پر ہے۔ بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں حالیہ یہودی تقریب کے موقع پر (90 فیصد کابینہ یہودی ہے) خود کو صہیونی (فخریہ) قرار دیا تھا۔ نظریۂ پاکستان تو پرویزمشرف نے امریکی جنگ کی خاطر، اسلام کا نام اور پیغام ہر شعبۂ زندگی سے مٹانے کو میڈیا اور تعلیم نیز حکومتی سطح پر بھی سبھی ذرائع وسائل اختیار کر کے، اسے امت سے کاٹ کر ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا ڈول ڈالا۔ صرف پاکستانیت، وطنیت کے نتیجے میں پوری خارجہ پالیسی کے یوٹرن نے ہمیں برادر ملک افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی بنایا۔ وہی امریکا جس نے اسلام دشمنی، یہود کی بہی خواہی میں مسلمانوں سے سفاکانہ بے رحمی برتی۔ سارے عالمی قوانین روند کر، انسانیت کے ذبیحے والی جنگ میں اسرائیل کو خوفناک حد تک مدد فراہم کی۔ عسکری قوت سے لے کر ویٹو تک کے ذریعے غزہ پر بمباری ایک دن بھی رکنے کی اجازت نہ دی۔ یہ ہے خونِ مسلم کی ارزانی اس کے ہاں! صرف افغانستان میں 20 سال دنیا کے مہیب ترین بم برسانے پر اکتفا نہ تھا، عراق اور شام پر ٹنوں بارود برسایا، کھل کر کہا کہ ہم نت نئے ایجاد کردہ ہتھیاروں کی آزمائش کر رہے ہیں! (مسلمانوں پر) تجربات کرکے اسلحہ سازی کی صنعت کو انہوں نے مہلک تر بنایا اور اب باری ہے غزہ کے مسلمانوں کی۔ صفایا، برائے قبضۂ قبلۂ اول! حقائق عین یہی ہیں۔ ہم ازسرنو امریکا کی گود میں بیٹھنے چلے ہیں تو کھلی آنکھوں سے دیکھ کر یہ مکھی نگلیں کہ یہ دجال کے باضابطہ لشکری بننے کے مترادف ہے۔ 2 ارب مسلمانوں میں سے اہلِ ایمان غزہ پر غمزدہ ،اسرائیل و امریکا پر ’قنوتِ نازلہ‘ برسا رہے ہیں۔ اللہ نے یوں بھی متنبہ فرمایا تھا۔ ’ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ آگ کی لپیٹ میں آ جاؤ گے/ تمہیں آگ پکڑ لے گی!‘ پناہ بخدا! اور سب سے خوفناک اور ’المناک المیہ‘ یہ ہے کہ جب امریکا کو افغانستان سے گیلے پیمپروں کے ساتھ فرار ہونا پڑا تو اس نے پاکستان کو اپنی شکست کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کیا کیا الزام تراشی، طعنہ بازی نہ کی۔ اور ہم جیسے تابعدار فدوی غلام پر کیسا غصہ نہ گرایا! دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے، پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے! مرحوم حمید گل کہا کرتے تھے: افغانستان بہانہ ہے اور (ایٹمی) پاکستان نشانہ ہے۔ ہمارے ہاں آنے والایہ وہی بلنکن ہے جو اسرائیل کو سینے سے لگاکر مسلسل تھپکی دیتا رہا۔ حتیٰ کہ عارضی جنگ بندی ٹوٹتے ہی بلا تاخیر غزہ کے بچے مارنے کی بمباری شروع کروا کراسرائیل سے نکلا۔ دنیا میں اس وقت امریکا اہلِ غزہ کا قاتل قرار دیا جا چکا۔ ویٹو، اسلحہ فراہمی اور اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کی بنا پر وہ نہایت قابلِ نفرین قرار دیا جا رہا ہے۔ خود اس کی اپنی انتظامیہ بغاوت کر رہی ہے، جس کے ملازمین نے وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کیا یہ لکھ کر:’ صدر بائیڈن! آپ کا عملہ آپ سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے۔‘ اس مظاہرے میں محکمۂ خارجہ سے غزہ مسئلہ پر استعفیٰ دے کر نکلنے والے ڈائریکٹر جوش پال بھی شریک تھے۔ ادھر برطانیہ میں سوناک پر مظاہرین برس رہے تھے:سوناک! شرم کرو! ایسے نازک وقت میں قائداعظم کا پاکستان کیونکر امریکا کی گود میں بیٹھ سکتا ہے؟ جبکہ امریکی شراکت سے غزہ ہسپتال کے زندہ زخمی اسرائیل نے بلڈوزر سے دفن کردیے۔ ہم دنیا کی فضا شاید دیکھ، سمجھ نہیں رہے۔ ڈوبتی کشتی میں بیٹھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ (وقتی) نگران وزیراعظم کاکڑ صاحب نے کیسے قائداعظم کے مقابل کھڑے ہوکر فلسطین پر ان کے موقف کو چیلنج کر ڈالا؟ زمینی حقائق ملاحظہ ہوں کہ ’معتبر ترین‘ ذہین وفطین خلقِ خدا کیا کہہ رہی ہے؟ ہارورڈ یونیورسٹی کے مرکز برائے امریکی سیاسیات اور دو اہم ترین تجزیاتی اداروں کے فلسطینی تنازعے پر حالیہ مشترک تحقیقی سروے نے چونکا ڈالنے والی انکشافات کیے ہیں۔ یہ کہ ’67فیصد 18 تا 24سالہ امریکی نوجوان یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہودی بحیثیت قوم جابر وغاصب ہیں اور انہیں ایسا ہی سمجھنا چاہیے۔ نیز 51 فیصد نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلے کا دیرپا حل اسرائیل کو ختم کردینا اور اس سرزمین کو حماس اور فلسطین کے سپرد کرنے میں ہے۔‘ (یروشلم پوسٹ: 17 دسمبر) ہمارے لیے تو یوں بھی یہ سیاسی وطنی مسئلہ نہیں، ایمانی اور آئینی مسئلہ ہے۔ یہ قبلۂ اول کا مسئلہ ہے جس کی خاطر عظیم اہلِ غزہ نے بے دریغ قربانیاں دی ہیں۔ ادھر نگران وزیر داخلہ (صوبائی) اچکزئی نے پاکستان میں امریکا کو ڈرونز کے لیے بیس دینے کا بیان داغا تھا۔ اللہ پاکستان کو اپنی ہی نگرانی میں رکھے۔ خونِ مسلم سے تربہ تر امریکا (یعنی اسرائیل) نوازی سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ازسرنو 2001ء والا کھیل نہ شروع ہو جائے۔
کاکڑ صاحب نے کشمیر پر 300مرتبہ جنگ کا عزم ظاہر کیا۔ بہت خوب! مگر اس سے پہلے بہت چھو ٹے سے کام پر آپ کو متوجہ کرتے ہیں۔ امریکا دوستی کے نتیجے میں قوم بلکہ امتِ مسلمہ کی مظلوم ترین بیٹی ڈاکٹر عافیہ رہا کروا دیں۔ فرضی جعلی جرائم پر منحنی سے کمزور جان لڑکی 20 سال سے امریکی ظلم وقہر کی بھینٹ چڑھی باگرام، نیویارک تا ٹیکساس کی جیلوں میں رگیدی جا رہی ہے۔ امریکی اتحادی بننے کا کچھ تو فیض ہمیں پہنچے۔ بہن ڈاکٹر فوزیہ کو 20 سال بعد ملاقات مئی اور دسمبر 2023ء میں ملی تو قوم کے روئیں روئیں میں غم، اذیت بھر گئی! اس عرصے میں پاکباز لڑکی، (امریکی قیدیوں میں 30 ہزار قرآن پاک تقسیم کرنے والی!) امریکی وحوش کے ہاتھوں باربار زیادتی کا نشانہ بنی۔ تشدد سے زخم مزید! اسے اس کے بچوں سے جدا کرکے پورے خاندان کو خون کے آنسو رلائے۔ 4 سالہ مریم اور 6 سالہ احمد! (6 ماہ کا سلیمان، جسے زمین نگل گئی یا آسمان، نہیں معلوم!) بڑے دونوں خالہ سے 5 اور 7سال بعد لا ملائے۔ مگر عافیہ کو بچوں کی تصاویر تک دکھانے کی اجازت نہ تھی! بس کاکڑ صاحب عافیہ واپس لے آئیں تو قوم اعلیٰ ترین ایوارڈ کی سفارش کرے گی! ان شاء اللہ! ورنہ کیا ہم ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے بھی باضمیر امریکی طلباء ہی سے درخواست کریں؟ ان پر اپنی حکومتوں کے حقائق (اہلِ غزہ کی قربانیوں کے طفیل) منکشف ہو چکے ہیں۔