نیچ حرکت!

لاہور ہائیکورٹ کے جانے مانے وکیل عابد ڈیال میرے عزیز ہیں کچھ عرصہ پہلے وہ اور اُن کے وکلا دوستوں نے فیروز والہ بار کے زیر اہتمام میری صدارت میں ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا۔ مشاعرے کے بعد فیروز والہ بار کے اس وقت کے جنرل سیکرٹری اور خوبصورت شاعر حافظ سلمان ایڈووکیٹ کے چیمبر میں وہاں موجود دوستوں سے خوش گپیوں کے دوران ایک وکیل صاحب نے معاشرے کی بدترین جہالت کا ایسا شرمناک واقعہ سنایا جسے سُن کر ہم سب حیرت زدہ رہ گئے۔ بقول اُن وکیل صاحب کے ”ایک روز اُن کے چیمبر میں اَن پڑھ اور مفلوک الحال قسم کے دو آدمی اور ایک عورت آئے۔ ان میں سے ایک آدمی نے بتایا کہ میرا نام رشید ہے اور یہ میری بیوی بُشریٰ ہے میں اسے طلاق دینا چاہتا ہوں۔ عام طور پر ہر گھر میں میاں بیوی کے درمیان تکرار ہوتی رہتی ہے لیکن ایسے گھر جہاں غربت اور جہالت ہو وہاں اکثر چھوٹی موٹی لڑائی پر بھی بات طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ عدالتوں میں اکثر ایسے کیسوں میں وکیل یا جج صاحب فریقین میں صلح صفائی کرا دیتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ سمجھا بُجھا کر ان کا آپس میں راضی نامہ کرا دیتا ہوں تا کہ ان کی آپس میں علیحدگی نہ ہو۔ مگر میرے سمجھانے پر بھی اس عورت کا شوہر اسے طلاق دینے پر بضد تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ میرے سمجھانے کے باوجود وہ شخص اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مُصر ہے تو میں نے اس کے ساتھ آئے دوسرے مرد سے کہا کہ وہ اسے سمجھائے۔ میرا خیال تھا کہ وہ آدمی شاید اُن دونوں میں سے کسی ایک کا عزیز یا رشتے دار ہو گا۔ میری بات سُن کر رشید نامی شخص غصے میں آ گیا اور کہنے لگا ”اسی کی وجہ سے تو میں اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہوں“ پھر اس نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے کہا ”اسے کہیں اب یہ مجھے رکھے یا اسے رکھے“۔ میں نے اس معاملے کو مزید کریدا تو پتا چلا کہ وہ مرد جو اس عورت کے ساتھ اب تک منہ میں گُھنگُھنیاں ڈالے کھڑا تھا۔ وہ رشید کا پرانا دوست ساجد عرف ساجھو تھا جس کا رشید کے گھر آنا جانا تھا اور اب اس کی بیوی بشریٰ سے اس کا ”سائیڈ لائن“ کوئی پیار محبت کا چکر چل رہا تھا جس کی رشید کو خبر ہو گئی تھی۔ میں نے اس سارے معاملے کو سمجھ کر اُس عورت سے پوچھا ”ہاں بی بی تم بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے، کیا تم اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی ہو“۔ وہ عورت کہنے لگی ”نہیں وکیل صاحب! میں اس سے طلاق نہیں لینا چاہتی“۔ میں نے کہا ”ٹھیک ہے پھر تم ساجھو سے اپنا تعلق چھوڑ دو“۔ اس پر اس عورت نے بڑے پیار سے ساجھو کو دیکھتے ہوئے کہا ”وکیل صاحب میں اسے بھی نہیں چھوڑ سکتی“۔ اس عورت کی وضع قطع اور گفتگو سے مجھے اس کے اَن پڑھ اور بیوقوف ہونے کا اندازہ تو تھا مگر دینی و اخلاقی لحاظ سے وہ اس قدر جاہل ہو سکتی ہے اس کا مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا۔ اس کی اس جہالت کے باوجود میں نے بڑے آرام سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ”بی بی! یہ جو تم کہہ رہی ہو اس کی اجازت نہ تو ہمارا دین اور قانون دیتا ہے اور نہ ہی کسی عورت کا شوہر یہ سب کچھ برداشت کر سکتا ہے۔ اگر تم اس شخص کو نہیں چھوڑنا چاہتی تو پھر تم اپنے شوہر سے طلاق لے کر عدت کے بعد اس سے شادی کر لو مگر اس سے پہلے نہ تم اس سے چھپ چھپا کر یا کھلے عام مل سکتی ہو اور نہ ہی دوران عدت اس سے شادی کر سکتی ہو۔ اس پر وہ ایک دم بھڑک کر کہنے لگی ”وکیل صاحب! تب اس کی غیرت اور برداشت کہاں تھی؟ جب ساجھو ہمارے گھر گرما گرم نان پکوڑے، آلو والی ٹکیاں، سموسے، فروٹ چاٹ، دہی بھلے، قلفہ، گاجر کا حلوہ اور کبھی کبھی تلی ہوئی مچھلی لے کر آتا تھا۔ اُس وقت تو یہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر بڑے مزے لے لے کر سب کچھ کھاتا پیتا تھا اور پھر اس کی موٹر سائیکل پر پورا پورا دن اکیلے سیر سپاٹے بھی کرتا تھا“۔ اس عورت کی زبانی اُن کی کہانی کا سارا پس منظر سُن کر میری اپنی برداشت جواب دے گئی میں نے باقاعدہ ایک ٹھنڈا سانس لیا اور تینوں کو مخاطب کر کے کہا ”آپ کی بڑی مہربانی مجھے معافی دیں آپ کا یہ معاملہ میرے بس کا نہیں ہے آپ کوئی اور وکیل دیکھیں۔ اس کے بعد وہ تینوں جس طرح ایک ساتھ میرے چیمبر میں آئے تھے اسی طرح اکٹھے باہر نکل گئے۔ بعد میں اُن کے معاملے کا کیا بنا مجھے کچھ معلوم نہیں اور نہ ہی میں نے کبھی اس بارے جاننے کی کوشش کی“۔ قارئین کرام! اس سے پہلے کہ کچھ لوگ میرے اس بیان کردہ واقعہ کو من گھڑت کہانی قرار دے کر اس میں سے اپنی مرضی کا کوئی مفہوم نکالیں۔ دروغ بر گردنِ راوی میں یہ وضاحت کر دوں کہ یہ سو فیصد سچا واقعہ ہے جس کی کسی بھی دوسرے واقعہ یا کرداروں سے مماثلت محض اتفاقیہ ہو سکتی ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کیونکہ پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا میں خان صاحب اور بشریٰ بی بی کی شادی کے حوالے سے خاور مانیکا کے انٹرویو اور اُن کے گھریلو ملازم محمد لطیف کے عدالت کے روبرو انکشافات کا خاصا چرچا ہے۔ باوجود اس کے کہ ان دونوں واقعات یا لو سٹوریز کے مرکزی خیال میں خاصی مماثلت ہے۔ ذہن میں رہے کہ دونوں واقعات کے کرداروں کے خاندانی پس منظر، رہن سہن، سماجی حیثیت، مقام و مرتبہ، عقل و دانش، زُہد و تقویٰ اور علم و آگاہی میں بے پناہ فرق ہے۔ ایک طرف آکسفورڈ کے پڑھے لکھے بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑی اور سیاست دان ہینڈ سم خان صاحب ہیں تو دوسری طرف ایک میلا کچیلا واجبی سی شکل و صورت کا دیہاڑی دار، اَن پڑھ اور جاہل رنگ باز ساجھو۔ ایک طرف روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز صوم و صلوٰۃ کی پابند ایک بڑے خاندان کی پردہ دار نیک اور پاک باز روحانی ہستی بشریٰ بی بی ہیں تو اور دوسری طرف اپنے شوہر اور بچوں سے بیوفائی کر کے اس کے دوست سے عشق کی پینگیں بڑھانے والی دین اور دنیا سے ناواقف نفسانی خواہشات کی ماری پرلے درجے کی جاہل اور گمراہ عورت ہے۔ سو ان دونوں واقعات کے کرداروں کا آپس میں موازنہ کرنا تو دور کی بات اس کے بارے سوچنا بھی پاپ یعنی گناہ ہے۔ باقی جہاں تک محبت کی بات ہے تو یہ خالصتاً ایک بشری تقاضا اور ہر کسی کا ذاتی مسئلہ ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے خاص طور پر جب محبت کرنے والوں کا تعلق ”اَپر کلاس“ سے ہو۔ البتہ اپنے دوست رشید کی بیوی کو ورغلانے کی جو نیچ حرکت ساجھو نے کی تھی وہ محبت نہیں سیدھی سادی بے غیرتی تھی۔ بے غیرت کہیں کا!۔