خود کشی کے واقعات بلال پاشا سے مولانا محمد حسین آزاد تک

کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں مشہور زمانہ لکھاری محمد حسین آزاد زندگی کے آخری ایام میں ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے۔ آپ نے اردو کا پہلا اخبار جاری کیا۔جوان اولاد کی موت کا غم برداشت نہ کر سکے اور شمس العلماء کا خطاب پانے والے مولانا محمد حسین آزاد جو بہت سی کتابوں کے مصنف تھے پاگل پن میں ہی اسی سال کی عمر میں فوت ہوئے۔
دنیا میں جاپان ایسا ملک ہے جہاں کتاب اور علم سے سب سے زیادہ محبت کی جاتی ہے اور جرائم کی رفتار سب سے کم ہے لیکن خودکشی کا تناسب دنیا میں کہیں زیادہ ہے۔
2023ء میں مولانا طارق جمیل جو بہت بڑے عالم دین ہیں اور سیاسی دنیا میں غیر ضروری مداخلت کے باعث اُن کی شخصیت متنازع ہوتی چلی جا رہی ہے، کے بیٹے عاصم جمیل نے گارڈ سے پستول چھین کر خود کو گولی مار لی۔ پہلے تو مولانا طارق جمیل نے کہا کہ بیٹے نے خودکشی نہیں کی دنیا بھر میں جب لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے تو اُن کے بیٹے یوسف جمیل نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں واضح کر دیا کہ اس کے بھائی نے خودکشی کی ہے۔
بعد میں بتایا گیا کہ وہ نوجوان دراصل ذہنی خلفشار کا شکار تھا اور عرصہ سے اُس کا علاج ہو رہا تھا لیکن دوسری طرف تلمیہ / میاں چنوں کے عوام نے بتایا کہ مولانا طارق جمیل کا یہ بیٹا ایک فیکٹری کا مالک تھا اور جو زرعی آلات خراب ہو جاتے عاصم جمیل کی اس فیکٹری میں اُن کی مرمت و تیاری ہوتی تھی۔ بلاشبہ اس قدر ٹیکنیکل کام کی نگرانی ایک ذہنی طور پر بیمار تو نہیں کر سکتا۔
پھر مولانا نے مذہبی عقائد کے برعکس عاصم جمیل کو شہید بھی قرار دیا اس کا جنازہ بھی پڑھایا اور باقاعدہ مذہبی رسومات بھی ادا کیں۔ جس پر عوام کی طرف سے سخت تنقید کی گئی اور اسے اُن کی تعلیمات کے برعکس جو تضاد دکھائی دیا اس پر عوام میں غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔
آگے پیچھے…… عاصم جمیل اور پھر سی ایس پی آفیسر بلال پاشا کی اموات ذہنی خلفشار کے باعث ہوئیں یا ان کے پیچھے عوامل کچھ بھی تھے…… بلال پاشا کے VLOGS اور اُن کی سوشل میڈیا پر لگی پوسٹیں اس بات کی غماز تھیں کہ وہ ذہنی توازن کھو چکے تھے…… کچھ حلقے ان اموات کو قتل بھی قرار دے رہے ہیں۔
بہت سے نامور گھرانوں کے بچے نوعمری میں موت کے منہ میں اچانک چلے گئے ایسے بہت سے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں میاں محمود الرشیدسابقہ پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر کے اکیس سالہ بیٹے کی موت بھی اچانک بیماری کے بعد ہوئی آیا کہ اس نوجوان کو برین ہمبریج ہوا یا کوئی اور مرض اچانک موت کا سبب بنا۔
پھر پیپلزپارٹی لالہ موسیٰ کے سب سے اہم اور نہایت نفیس رہنما قمر زمان قائرہ کے نو عمر بیٹے کی کار حادثہ میں اچانک موت، پھر راولپنڈی کے مسلم لیگی رہنما ڈاکٹر طارق افضل کے بھی نو عمر بیٹے کی کار حادثہ میں موت بھی پریشان کن حادثہ تھی۔ یہ اموات ایسے صدمے تھے جو ناقابل بیان ہیں اور ان دکھوں کا مداوا ممکن نہیں۔
بات شروع ہوئی تھی شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کی جوان اولاد کی موت اور اس موت کے بعد دکھی ہو کر ذہنی توازن کھو جانے اور ایسی کیفیت میں اُن کی موت سے…… یہ صدمے انسانوں کو مار ڈالتے ہیں۔ اس وقت ذہنی امراض کے سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ لاہور میں فاؤنٹین ہاؤس جیسے ادارے بھی موجود ہیں، جہاں اچانک ذہنی توازن بگڑنے والے لوگ داخل کیے جاتے ہیں۔ ایک صاحب کی کم عمری میں ہی اُن کی سرکاری ملازمت پر گریڈ اٹھارہ سے گریڈ انیس میں ترقی ہوئی اور وہ یہ خوشی برداشت نہ کر سکے اور ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ اس کو لاہور کے فاؤنٹین ہاؤس میں داخل کردیا گیا جہاں وہ ہر آنے جانے والے سے کہتے …… آپ کو پتہ ہے میری گریڈ انیس میں ترقی ہو گئی ہے؟! ایک دور میں میر پور آزاد کشمیر میں بہت سی نو عمر لڑکیوں کی خودکشی کی خبریں سنی۔ ان نو عمر مختلف نوعیت کی دل دکھا دینے والی اموات کا تذکرہ مولانا محمد حسین آزاد کی آخری عمر کی تفصیلات کے بعد ایک ایک کر کے اس لیے کیا کر آیا…… ایسے اچانک پیش آجانے والے حادثات اور اُن کے بعد انسانوں کی کیفیات اس بات کا تقاضا نہیں کرتیں کہ اس جدید ترین دور میں محض ٹونے ٹوٹکوں کا سہارا نہ لیا جائے تھوڑا بہت متاثر ہوتا دکھائی دینے والا مریض فوری اور مکمل توجہ مانگتا ہے کیونکہ میں نے اپنے مشاہدہ میں بہت سے مریض یا ذہنی پریشر کا شکار لوگوں کو دیکھا کہ جہاں تو اہل خانہ نے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا یا توجہ اور محبت سے دل و جان سے ایسے رشتوں کو Cool Down کیا ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوائیں استعمال کرائیں، مختلف انداز کی تھراپی کی گئی یا صدیوں سے رائج ذہنی صحت کو بہتر کر دینے والی خوراک کا استعمال لگاتا ر مخلص انداز میں پوری توجہ سے کیا گیا۔ معاملات ہاتھوں سے نہیں نکلے اور کچھ عرصہ بعد ایسے مریض یا پریشان حال لوگ عام صحت مند لوگوں کی سی زندگی گزارنے لگے۔ لیکن جہاں ایسے سنجیدہ معاملات پیروں فقیروں اور فراڈعاملوں یا غیر تعلیم یافتہ حکیموں کے سپرد ہوئے وہاں ایسے لوگوں کے باعث نہ صرف فرد واحد تباہ ہوا، اوذیت کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلا گیا وہیں خاندان بھی برباد ہوتے دکھائی دیتے۔ اور جعلی پیروں فقیروں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے جھوٹے قصے سناسنا کر اپنی دو نمبر کرامات کی جھوٹی کہانیاں بیان کر کر کے بہت سے قابل علاج انسانوں کو موت کے منہ میں محض چند ٹکے کمانے کے لیے دھکیل دیا اور معاملات جنات، ہوائی مخلوقات، جادو ٹونے کی نذر کر دیے اور توہم پرستی سے چڑے اسی خطے کو مزید پیچھے دھکیل دیا کہ علم سے مزید دوری، ہماری ترقی کی راہ میں مزید گڑھے کھود گئی اور رکاوٹ کا باعث بھی بنی۔
لاہور کے علاقے مسلم ٹاؤن میں پاکستان کے نامور سیٹھ جناب سیٹھ عابد مرحوم کے تین بچے دو بیٹے اور ایک بیٹی ایسے ہی حالات سے دو چار ہوئے۔ بڑے بیٹے نے ایک ملازم جو سکیورٹی گارڈ تھا چھٹیاں گزار کر آیا تو زیادہ چھٹیاں کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ کی اور گالی گلوچ کیا تو اس گارڈ نے مالک کے بیٹے کو قتل کر دیا۔ ایسے ہی دوسرا بیٹا اور 2023ء میں بیٹی بھی جس کی موت خودکشی قرار دی گئی پھر قتل کہلاتی رہی اور پھر دوسرے بہت سے کیسز کی طرح کھوہ کھاتے میں یہ اور ایسے سیکڑوں کیس بھی چلے گئے…… اور عوام میں خاص طور پر نئی نسل کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ گھر میں سایہ کے باعث ہوا، جادو ٹونہ کیا گیا،جنات گھر میں تھے، خالہ یا پھوپھی نے جادو کرایا اور گھر سے تعویذ نکلے…… گویا بہت سے معاملات جو میڈیکل سے وابستہ کیس تھے ہماری روایتی توہم پرستی کی نذر ہو گئے۔
ملک کے بہت سے اہم عہدے پر فائز ایک ہستی میرے پاس آئی اور نہایت رازداری سے مجھے کہا گیا کہ ہمارے ہاں گھر میں غیبی مخلوق، جنات موجود ہیں یا سایہ ہے۔ آپ ہمارے ساتھ چلیں اور جا کر حالات کا جائزہ لیں، میں نے اس کے اسرار پر اس کے گھر جا کر ہر اینگل سے جائزہ لیا ہر پہلو پر غور کیاو، مختلف سینئر عاملوں سے مشاورت کی…… اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ امراض میڈیکل سائنس سے متعلقہ ہیں اور توہم پرستی کے باعث محض ان کو الجھایا گیا ہے، شاید بہت بڑی تعداد یا مقدار میں جائیدادیں ان معاملات کے پیچھے تھیں یا کوئی اور خاندانی وجوہات تھیں۔ میں نے جب درخواست کہ کہ سائیکائٹری کے ماہرین سے رجوع کریں تو مجھے فارغ کر کے ان پڑھ عاملوں اور دو نمبر بابوں کی طرف رجوع کر لیا گیا جن کے بہت سے منفی اثرات اور نقصانات میں نے دیکھے۔