انتخابات: ”پھر وہی زندگی ہماری ہے“

سال نو الیکشن کا سال ہے جیسے جیسے نیا سال قریب آ رہا ہے سیاسی گہما گہمی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ہمیں امریکی ارب پتی Warren Buffet بہت یاد آ رہا ہے۔ جب 2011ء میں باراک اوباما دوسری مدت کے لیے اپنی انتخابی مہم چلا رہے تھے تو اس وقت امریکا پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ Warren Buffet نے کہا کہ میں ایک منٹ میں سارے امریکی قرضے ختم کر سکتا ہوں۔ میرے پاس قرضے اتارنے کا گارنٹی شدہ حل ہے۔ ان کے اس بیان نے ملک کے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچا دی۔ Warren Buffet نے کہا کہ ملک میں یہ قانون بنا دیں کہ جس پارلیمنٹ کے دور حکومت میں ملک کی خام قومی آمدنی میں ہونے والا سالانہ اضافہ 3 فیصد سے کم ہو۔ اس پارلیمانی سیشن کے تمام کے تمام ممبران پارلیمنٹ اور ارکان سینیٹ کو اگلے الیکشن کیلئے آئینی طور پر نا اہل قرار دے دیا جائے۔ یہ تجویز اگر قابل عمل بنا دی جائے تو کسی ملک کا مقروض رہنا ممکن نہیں ہے کیونکہ سیاستدانوں کے لیے انتخابی نا اہلی سیاسی موت کے مترادف ہوتی ہے۔ وہ طبعی موت قبول کر سکتے ہیں مگر نا اہلی قبول نہیں کریں گے۔ جس ملک کی سالانہ GDP اگر 3 فیصد کی رفتار سے بڑھنے لگے تو ایک پارلیمنٹ میں اگر5 سال مدت پوری کرتی ہے تو ملکی آمدنی میں 15 فیصد اضافہ اس ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہانے کے لیے کافی ہو گا۔ وارن بوفے نے جو کچھ کہا تھا امریکہ سے زیادہ پاکستان میں اس کے نفاذ کی ضرورت ہے مگر کیا مجال ہے کہ کہیں آج تک ان کے اس بیان کی کسی سطح پر کوئی گونج سنائی دی ہو۔

اس موقع پر ہمیں علامہ خادم رضوی مرحوم کا ایک مضحکہ خیز بیان یاد آ رہا ہے جو وارن بوفے سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے تھے اگر پاکستانی سیاست کو امریکی ارب پتی کا قول قابل قبول نہیں تو وہ خادم رضوی کی بات جان لیں انہوں نے بھی TV پر ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا تھا کہ میں ایک منٹ میں پاکستان کا سارا قرضہ اتار سکتا ہوں اینکرز ان سے بہت ڈرتے تھے کیونکہ وہ اکثر TV پر اینکرز کو ڈانٹ دیا کرتے تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ قرضہ ایک منٹ میں کیسے اترے گا تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہماری حکومت بر سر اقتدار آئی تو سب سے پہلے تو ہم سود سے انکار کر دیں گے اور Lenders کو صاف کہیں گے کہ ہم نے جتنے پیسے لے رکھے ہیں ہم اصل زر واپس کرنے کے پابند ہیں سود کی مد میں ہم ایک پائی بھی نہیں دے گے پھر خادم رضوی صاحب نے اینکرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو ایک منٹ میں میں نے آپ کا آدھا قرضہ ختم کر دیا ہے چلو اب باقی آدھے کا انتظام کرتے ہیں پھر آپ نے پہلے سے زیادہ خود اعتمادی سے فرمایا کہ ہم آئی ایم ایف کو بتادیں گے کہ فی الحال ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں جب ہوں گے تو ہم دے دیں گے اس طرح علامہ صاحب نے ایک منٹ میں سابقہ قرضے سے بھی گلو خلاصی حاصل کر لی۔

اس وقت قومی سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں کہ کسی طرح عوام کو لبھایا جائے۔ میاں نواز شریف اس وقت سب سے بلندپرواز کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے نام کے ساتھ ایک ایسا adjective لگ گیا ہے جسے مٹانا مشکل ہے جس طرح عمران خان کو بر سراقتدار آتے ہی سیلیکٹڈ کا خطاب ملا تھا جو اقتدار بھر جاری رہا اسی طرح میاں نواز شریف کو اقتدار میں آنے سے پہلے ہی لاڈلا قرار دیا جا چکا ہے جو ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے سیاسی origin کا سب کو پتہ ہے،یہ دونوں پری پولنگ سٹیج پر ہی ن لیگ کی آغوش میں آچکی ہیں لہٰذا کسی شک و شبہ کی گنجائش رکھنا محض حماقت ہو گی۔ ق لیگ جنم سے آج تک یہ پارٹی اپنے مخصوص ڈگر پر ہے اور نئی تشکیل پانے والی ہر حکومت کی سہولت کاری کرتی ہے۔ یہ ہمیشہ اقتدار میں آنے والوں اور جیتنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں لہٰذا اگر یہ ن لیگ سے مل رہے ہیں تو سمجھ جائیں اگلی حکومت کس کی ہے۔

چوہدری شجاعت حسین کی بارگیننگ پاور کا جواب نہیں انہوں نے میاں صاحب کو کہا کہ گزشتہ الیکشن میں جن جن 20سیٹوں پر ق لیگ جیتی تھی ان پر ہمارا حق ہے۔ ن لیگ پہلے وہ 20 سیٹیں ہمارے حوالے کر دے اس کے بعد ہم جیت کر وہ ساری سیٹیں ن لیگ کے پلڑے میں رکھیں گے اور اس کے عوض حکومت سے اپنا حصہ وصول کریں گے۔ یعنی ن لیگ یہ 20 سیٹیں ق لیگ سے 2 بار خریدے گی۔ سوال یہ ہے کہ ان 20 سیٹوں پر جو ن لیگ کے مقامی امیدوار اور ووٹرز ہیں وہ کس حد تک ایسے کسی فیصلے کے پابند ہیں۔ ن لیگ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو ٹکٹ دے کر اس کا خمیازہ بھگت چکی ہے کہ ان کے سارے کے ساتھ لوٹے مسترد ہو گئے تھے لیکن ن لیگ نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔

ان الیکشن میں پی ٹی آئی تو کہیں نظر نہیں آتی اگر وہ پنجاب میں کوئی سرپرائز دیتی ہے جس کا کہ امکان کم ہے تو ایسی حکومت کا بھی حل کر لیا گیا ہے کہ جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کے جتنے Electables جیتیں گے انہیں بیک جنبش ابرو ن لیگ میں بھرتی کر دیا جائے گا۔ البتہ ن لیگ کے لیے اقتدار کی پرواز ناہموار ہو سکتی ہے انہیں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

میاں نواز شریف کے لیے جبکہ ان کے ہاتھ میں آکر لوہا بھی نرم ہوجاتا ہے اسے جیسے چاہیں موڑ دیں جدھر چاہیں مروڑ دیں انہیں اپنے چوتھی بار وزیراعظم بننے سے زیادہ اپنی سیاسی جانشینی کی فکر ہے اگر معاملہ ان کی رضا کا ہو تو وہ مریم نواز کو وزیراعظم بنانے میں زیادہ خوش ہوں گے مگر مریم نواز پر اعتراض کرنے والوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب کی پچھلی حکومت بھی ”روک سکو تو رو ک لو“ کی بنا پر مریم کی وجہ سے بحرانوں کا شکار ہوئی تھی۔

ن لیگ کو کنگز پارٹی کا تاثر زائل کرنے میں بڑا ٹائم اور محنت درکار ہو گی اور اس دوران ملک کے معاشی محاذوں پر ڈلیور کرنا ہو گا لیکن یہ سارے مفروضے ابھی ناپختہ ہیں یہاں منظر تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ پی ٹی آئی کوئی ایسا ٹرمپ کارڈ اب بھی کھیل سکتی ہے یا پھر عوامی رائے کے اندر اتنا بڑا شفٹ آسکتا ہے جسے نظر انداز کرنا کسی کے بس میں نہ ہو۔ پی ٹی آئی کے پاس بائیکاٹ کا آپشن بھی موجود ہے۔ میاں صاحب کو اقتدار سے ہمکنار کرنے والوں اور قربتیں بڑھانے والوں کا اپنا ایک نظریہ ہے بقول غالب
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے

مگر ان کے مخالفین کے لیے بھی دیوان غالب میں بہت سا سامان زیست موجود ہے وہ تو شعر ہی شعر میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ
ہوا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے