زندہ بھٹو۔۔۔۔۔۔مردہ بھٹو

کل دو بڑی خبریں میرے سامنے ہیں۔ نواز شریف کی 15سال کے بعد چوہدری شجاعت کے گھر آمد اور سپریم کورٹ میں آصف علی زرداری کی اس پٹیشن پر جس میں سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جو پھانسی دی گئی ہے وہ عدالتی قتل ہے، درخواست قابل سماعت قرار دے دی۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ہماری تاریک تاریخ کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے 4اپریل کو عدالت کے ذریعے پھانسی دی۔ پھانسی پاکستان کی 76سالہ تاریخ کا وہ گھناؤنا باب ہے جس کے ایک ایک ورق اور ایک ایک لفظ میں نفرت، اناپرستی اور میں نہ مانوں کی ضد اور اقتدار کی ہوس نے ہمیں ایک بڑے لیڈر سے محروم کر دیا۔

بھٹو کا قتل ایک عدالتی قتل تھا اس سے قبل سقراط نے زہر کا پیالہ پیا اور لازوال ہو گیا۔ سیدنا حضرت امام حسینؓ نے کربلا میں شہادت پائی اور دین پناہ بن گیا۔ یہ سب بڑے لوگ تھے اور بعض لوگ…… کئی حوالوں سے یاد کئے جاتے ہیں اور ہم ان کے چہروں اور ناموں اور کئے کاموں سے ان کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ گو وہ مر چکے ہوتے ہیں یا شہید کر دیئے جاتے ہیں۔

بھٹو مر گیا…… تاریخ کو یہ باور کرایا گیا، اس کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا…… لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ جب تک اس کی پھانسی کے بارے عدلیہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر دیتی…… اگر قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت نے صحیح فیصلہ کر دیا جو شاید 44 سال گزرنے کے بعد ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا۔ اب عدلیہ کتنے دنوں میں ایک اور انصاف طلب فیصلہ کرتی ہے اور اگر یہ عدالتی قتل ثابت ہو جاتا ہے تو پھر کیا سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق، اس دور کے چیف جسٹس نسیم شاہ یا پھر اس نامنصفانہ نظام کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا جس نے کئی بے گناہوں کو پھانسی گھر پہنچایا……

بھٹو نے ایک بار کہا تھا…… میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے فوج کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دوں گا…… پھر سب نے دیکھا کہ تاریخ نے بھٹو کو نہیں مارا، جیل کی پھانسی کی کوٹھری میں بھٹو نے بار بار کہا تھا کہ اسے آزادی نصیب ہو پھر وہ کھلی اور آزاد دنیا میں آئے…… ایک بار پھر اس کی آواز دنیا سنے۔ ایک بار پھر زندگی میں وہ اپنے عوام میں واپس جائے، بے بس بھٹو نے یقینا مایوسی کے عالم میں کئی بار اپنی مرضی کی موت کی دعا کی ہوگی۔ اے خدا تو نے زندگی اپنی مرضی سے دی، اب موت میری مرضی کے مطابق بخش دے…… مگر وہ بھٹو جس نے فوج کے ہاتھوں مرنا پسند کیا اور جسے تاریخ کے ہاتھوں مرنا پسند نہیں تھا، اسے اپنی مرضی کی موت ملی کیونکہ تاریخ اس کی موت کے پروانے پر دستخط کرتی تو اس کا نام و نشان تک مٹ جاتا۔ تاریخ نے تو اس کو زندہ رکھا ہوا ہے، اس نے اپنی حیات نو اور ابدی زندگی کے لئے تاریخ لکھی اور بنائی ہے۔ اس نے کبھی بھی اقرار جرم نہیں کیا، نہ رحم کی بھیک مانگی جب تک وہ زندہ رہا۔

اس بات پر مصر رہا کہ وہ بے گناہ ہے۔ عدالتوں نے اسے ملزم سے مجرم ثابت کیا اور پھر پھانسی پر چڑھا دیا…… اس کی موت نے افواہوں اور کئی شہادتوں کو جنم دیا۔ وہ اس دوران دو انتہاؤں پر کھڑا نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ ایک استعارے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ بھٹو دو دنیاؤں کے سنگھم پر کھڑا ہے ایک دنیا جو اس کے لئے مر گئی اور ایک دنیا ایسی ہے جس نے اس کی موت سے جنم لیا۔ یوں وہ ایک زرمیہ کا کردار بنتا ہے جو ایک لیجنڈ بن جاتا ہے اور یوں ایک لیجنڈ کی حیثیت سے اسے کرنا کرنا، اسے بھلا دینا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے۔ یہاں یورپی شاعر پابلونر  نے اپنی ایک نظام میں کہا تھا:
اب مجھ پر کشف ہوا ہے کہ میں ”ایک“ تھا
بلکہ ایک ”میں“ کئی تھا
اور میں کئی بار مر چکا ہوں
اور نہیں جانتا کہ میں نے کیسے دوبارہ جنم لیا
سوائے اس ایک احساس کے
ایسے ہی ایک دوسری زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں
صرف میں زندہ ہوں اور یہ میں ہوں جو مر چکا ہے
وہ جو ایک سے کئی ہوتا ہے…… وہ کئی بن کر……
ہزاروں لاکھوں میں زندہ رہتا ہے
جس میں زندہ کارنامے سرانجام دینے والے انسان……
یوں تو فنا کے گھاٹ اترتے ہیں لیکن تاریخ ان کو
ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔

اس لئے بھٹو کو مردہ سمجھئے…… وہ زندہ رہے گا، مرنے کے بعد بھی زندہ رہنا، بھٹو کا ”مقدر“ ہے۔ اس کی ”مجبوری“ ہے۔ بھٹو کو زندہ قرار دیتے ہوئے میں کسی جرم کا ارتکاب نہیں کر رہا، نہ ہی میں قانون کی حرمت کو چیلنج کرنے کا سزا وار ہوں کیونکہ میرے نزدیک سب سے بڑا خدا کا قانون ہے اور سب سے بڑی عدالت خدا کی ہے۔ وکٹر ہوگو نے عدالت میں ایک بار کھڑے ہو کر کہا تھا قانون سازی کا مکمل عمل دو قسموں پر منقسم ہوتا ہے۔ یہاں اخبارات کا فرض بنتا ہے کہ وہ قوانین پر نکتہ چینی کرے جس سے قانون کو مدد ملے۔

ایک لکھنے والے کی حیثیت سے مجھ پر فرض عائد ہوتا ہے، میں نے تاریخ اور شواہد سے جو دیکھا جو سنا جو پڑھا سمجھتا ہوں کہ اس کو لکھ دوں۔ میں قانون دان نہیں ہوں، نہ ہی میں قانونی موشگافیوں کو جانتا ہوں، ادب کا جتنا تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اور انسانی تاریخ کا جس حد تک علم میرے حصے میں آیا میں تو اسی کے بل بوتے پر بات کر رہا ہوں کہ میں جیالا بھی نہیں ہوں کہ بھٹو صرف جیالوں کا نہیں وہ پاکستان کا سیاسی اور بڑے قد کا لیڈر تھا لہٰذا بھٹو کو آج بھی مردہ بھٹو تصور نہیں کرتا ہوں۔ عدالتوں کے قانون نے اسے مجرم قرار دے دیا لیکن اس کی خدمات، اس کی جان بخشی کے لئے کی جانے والی دنیا بھر سے اپیلیں اگر مدنظر رکھی جائیں تو اسے موت سے بچایا جا سکتا تھا، اسے عمرقید کی سزا دی جا سکتی تھی، اس کی سزا میں کمی ہو سکتی تھی لیکن ایسا نہ ہوا، نہ کرنے دیا گیا۔ دنیا میں قتل ہوتے رہتے ہیں اور قاتل بچ بھی جاتے ہیں۔ بعض قوانین کو خود خداتعالیٰ نے زندہ رکھا کیونکہ وہ ان سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا تھا۔ بھٹو جیسے لوگ مرتے نہیں ہیں …… اور بھٹو بھی مرا نہیں ہے حالانکہ اس کا وجود مر چکا ہے لیکن وجود سے ماورا جو کھ ہوتا ہے وہ زندہ ہے۔ بھٹو کے قتل کا معاملہ پھر سپریم کورٹ میں آ گیا ہے، آج پھر سے 44 سالہ پہلے والی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت جسٹس مولوی مشتاق اور جسٹس نسیم شاہ تھے۔ آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں، عدالت کا روسٹرم اور کورٹ نمبر ایک ہی ہے۔ بڑی خبر یہ ہے کہ آصف علی زرداری کی درخواست کو مان لیا گیا ہے، یہ 44 سالہ تاریخ کا پھر ایک اہم موڑ آ گیا ہے۔ دیکھیں عدالت عالیہ

سیاست میں کبھی کوئی نکلتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔ بھٹو مر کر بھی زندہ ہے۔ بی بی مر کر بھی زندہ ہے، نوازشریف پھر نکلنے کے بعد پھر سیاست میں آ چکے ہیں، عمران خان جیل میں ہے مگر سیاست میں موجود لیڈر شخصیات نہ مرتی ہیں نہ اِدھر اُدھر ہوتی ہیں مگر زندہ رہتی ہیں۔ خدا کرے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت سے مردہ بھٹو کو زندہ بھٹو کا فیصلہ مل جائے۔