بشریٰ بیگم ان ہائیکورٹ!

ابھی بہت پرانی بات نہیں کہ بانی تحریک انصاف عمران خان سیاسی جلسوں میں اپنے مخالفین کے بارے میں بڑے زورو شور سے کہا کرتے تھے کہ ’انہوں نے کچھ کیا ہے توہی جیل میں ہیں نا‘۔ آج جب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور مسٹر نیازی اقتدار کی کرسی سے اتر کر ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے پائے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر انہیں کے طے کردہ فارمولے کا ذکر کیا جائے یا اس پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ برا منا جاتے ہیں۔اس کے علاوہ نیازی صاحب اپنے مخالفین کی لیک شدہ آڈیو اور ویڈیو کالز پر بھی بہت ڈنکے بجایا کرتے تھے لیکن جب یہ سلسلہ اپنے ساتھ شروع ہوا تو انہیں یہ سب کچھ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر آئینی محسوس ہونا شروع ہو گیا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اب تک مسٹر عمران نیازی، اس کی بہنوں اور زوجہ محترمہ کی جتنی بھی آڈیو لیکس میڈیا کی زینت بنی ہیں ان میں سے کسی کی بھی ان لوگوں کی جانب سے کوئی باقاعدہ تردید سامنے نہیں آئی۔نہ ہی ان آڈیوز کا فرانزک کرانے کا کوئی مطالبہ کیا گیا۔ بلکہ اس کے برعکس ان کے سیاسی مخالفین اس قسم کی لیکس کا فرانزاک کراتے پھرتے ہیں تاکہ اگر کسی موقع پر کوئی تردید آجائے تو فرانزک رپورٹ کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکے۔

ان آڈیو لیکس کے بارے میں اخلاقیات، قانون اور آئین کیا کہتا ہے یہ تو خیر ایک علیحدہ بحث ہے لیکن فی الحال خبر یہ ہے کہ عمران نیازی کی زوجہ محترمہ نے اپنی اور وکیل لطیف کھوسہ کی حال ہی میں لیک ہونے والی ایک آڈیو کے حوالہ سے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔

لطیف کھوسہ کی جانب سے دائر کی گئی اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ’میں سابق وزیر اعظم کی اہلیہ ہوں اور لطیف کھوسہ میرے وکیل ہیں اورمجھے ان سے ہر سطح پر قانونی مشاورت کرنا ہوتی ہے لیکن بدنیتی کی بنیاد پر میری اُن کے ساتھ گفتگو کو غیر قانونی طور پر ریکارڈ کر کے پبلک کر دیا گیا ہے‘۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ ہے کہ بشریٰ بی بی اور لطیف کھوسہ کے درمیان آڈیو کال کو میڈیا پر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور اس آڈیو لیک کا اصل مقصد بشریٰ بی بی کوہراساں کرنا اور ان کی خاندانی زندگی پر منفی اثر ڈالنا ہے۔

بشریٰ بی بی کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم کے سیکرٹری کے علاوہ، دفاع اور داخلہ کے سیکرٹری صاحبان اور پی ٹی اے کے چیئرمین واضح طور پرتسلیم کر چکے کہ کسی بھی ایجنسی کو خفیہ ریکارڈنگ وغیرہ کی اجازت نہیں ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ایک وکیل اور کلائنٹ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو پبلک کرنے سے قانونی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ معزز عدالت اداروں اور ایجنسیوں کو فون کال ریکارڈ کرنے اور پبلک کرنے سے روکے۔ عدالت اداروں اور ایجنسیوں کو تمام جاسوسی آلات کو ہٹانے کے احکامات بھی جاری کرے۔ واضح رہے کہ لیک ہونے والی آڈیو کال میں لطیف کھوسہ اور بشریٰ بی بی کو بات کرتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے جس میں عمران خان کی اہلیہ گفتگو کے دوران لطیف کھوسہ سے اپنے شوہر کی بہنوں سے ہونے والے اختلاف پر بھی کھل کر بات کرتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ لطیف کھوسہ اس آڈیو لیک کی تصدیق تو کرتے ہیں لیکن صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس قسم کی گفتگو ایک وکیل اور کلائنٹ کے درمیان ہوتی رہتی ہے، لہٰذا جس کسی نے بھی یہ آڈیو لیک کی ہے اُسے شرم آنی چاہیے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی زلفی بخاری کے ساتھ ایک گفتگو کی آڈیو لیک ہو جانے پر بشریٰ بی بی اپنے وکیل لطیف کھوسہ کے ذریعے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر چکی ہیں۔ اس پٹیشن میں بشری بی بی کی جانب سے پولیس، ایف آئی اے اور پیمرا کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست کیساتھ میاں نجم الثاقب کیس میں جسٹس بابر ستار کے حکمنامے کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ گھر کی ٹیلیفون کی ریکارڈنگ کو غیر قانونی اور اختیار سے تجاوز قرار دیا جائے، یہ بھی قرار دیا جائے کہ اس طرح کی ریکارڈنگ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اس کے علاوہ درخواست کے حتمی فیصلے تک فریقین کو بشریٰ بی بی کیخلاف کسی بھی ایکشن سے روکا جائے۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ بے بنیاد آڈیو کو مختلف چینلز پر نشر کر کے اسے(بشریٰ بی بی) کے ساتھ منسوب کیا جا رہا ہے۔ چند ماہ قبل دائر کی جانے والی اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ بشری بی بی ایک مذہبی اور پردہ دار خاتون ہیں اورسیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

ماضی میں بھی اس قسم کی آڈیو لیکس آتی رہی ہیں لیکن متاثرہ جو بھی پارٹی ہو وہ سب ردعمل میں تقریباً ایک جیسا ہی موقف اختیار کرتے ہیں، کہ قانون، اخلاقیات اور آئین اس قسم کی حرکت کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتا۔ اگر اس موقف درست کر بھی لیا جائے تو بھی اس بات کی بھی وضاحت ہونی ہی چاہی کہ جن لوگوں کی آڈیو یا ویڈیو وغیرہ لیک ہوتی ہیں وہ اپنی اس قسم کی گفتگو یا حرکات سے قانونی، اخلاقی یا آئینی مجرم ثابت ہو جاتے ہیں ان کے خلاف کیسے ایکشن لیا جا سکتا ہے۔

اس قسم کی لیکس کے پیچھے جو بھی ہاتھ ہے اسے بے نقاب تو ضرور ہونا چاہیے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی ضرور ہونی چاہیے لیکن ان لیکس کی روشنی میں اخلاقی یا قانونی مجرم ثابت ہونے والوں کے خلاف بھی تو کچھ نا کچھ کارروائی ضرور ہونی چاہیے۔