کوپ 28 :فیصلوں کی گھڑی یا سمجھوتوں کے لمحات

تحریر: زینب وحید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مجھے یقین کہ کرہ ارض کے اس حصے میں جہاں کوپ 28  ہو رہی ہے، اس کی ایک خاص بات ہے کہ آہستہ آہستہ مثبت سوچ پنپ رہی ہے، اعتماد بڑھ رہا ہے اور امید کی کرن نظر آرہی ہے”

کوپ 28 کے صدر سلطان احمد الجابر بلیو زون میں جب یہ باتیں کر رہے تھے تو اُن کے پاس اپنے اس پُراعتماد لہجے کےلئے ایک دلیل بھی موجود تھی۔ کوپ 28 کے پہلے ہی دن وہ خود متحدہ عرب امارات کی جانب سے 30 ارب ڈالر کے کلائمیٹ فنڈ  کا اعلان کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ گرین کلائمٹ فنڈ کے لئے امریکا 3 ارب ڈالر، سوئٹزر لینڈ 135 ملین سوئس فرانک،  پرتگال 4 ملین یورو، اٹلی 300 ملین یورو اور اسٹونیا، ایک ملین ڈالر کا اعلان کر چکا ہے۔ ساتویں دن تک مجموعی طور پر 83.38 ارب ڈالر کااعلان ہو چکا ہے جو 2030 تک موبلائز (متحرک) کرنے کی امید دلاتا ہے۔

کوپ کے رکن ممالک ایک اورسمجھوتے پر بھی پہنچے ہیں کہ کلائمیٹ چینج سے شدید متاثر ترقی پذیر ممالک کو ٹیکنیکل مدد فراہم کی جائے گی۔ ان معاملات کی نگرانی  اقوام متحدہ کا آفس فار رسک ڈیڈکشن اینڈ پروجیکٹ سروسز  کرےگا۔

کوپ 28 میں پاکستان نے اپنا مقدمہ پیش کر دیا ہے۔ نگران وزیراعظم نے واضح کیا کہ  کلائمیٹ چینج انسانیت کےلیے خطرہ ہے۔ ترقی پذیرملکوں کی ضروریات100ارب ڈالر کے وعدوں سے بہت زیادہ ہیں بلکہ امیر ملک مزید آگے بڑھیں اور  2030تک کم ازکم 6 ٹریلین ڈالر فراہم کریں۔  ترقی پذیرملکوں کوموسمیاتی چیلنج سےنمٹنےکے لیے فنانس، استعدادکار اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس دنیا کو کسی ایک نکتے پر لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے واضح کر دیا  ہے کہ  دنیا پیرس موسمیاتی معاہدے کے مقاصد سے ابھی تک میلوں دور ہیں، لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ فوسل ایندھن کو جلانا بند کیا جانا چاہیئے، فوسل فیول کمپنیاں فرسودہ کاروباری ماڈل کو دگنا نہ کریں، حکومتیں فوسل فیول سبسڈی ختم کریں اور منافع پر ونڈ فال ٹیکس اپنائیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کو موسمیاتی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔  ہمیں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روک کر زمین کی حفاظت کرنا ہو گی اور دنیا کو آلودگی سے پاک قابل تجدید توانائی فراہم کرنا ہو گی، کاربن اور فاضل مادے کے کنٹرول کیلئے قانون سازی کرنا ہو گی۔ پیرس ایگریمنٹ اور فوسل فیول کے معاملے پر وہ دنیا کو کس حد تک ایک پیج پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس پر یہی کہا جا سکتا ہے

ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں

کوپ 28 میں شاہ  چارلس کو بھی بلایا  گیا ہے ۔ انہیں دسمبر 2015 میں پیرس ایگریمنٹ کے موقع پر بھی مدعو کیا گیا تھا۔  شاہ چارلس نے تباہی اور ماحولیاتی مستقبل  بہتر کرنے کا لائحہ عمل پیش کر دیا۔ انہوں نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی کہ اسے بدترین سیلاب کا سامناکرنا پڑا۔ انہوں نے آئندہ کا روڈ میپ پیش کیا کہ اب زیرو کاربن پالیسی اپنانا پڑے گی ۔۔ گرین ٹیکنالوجی کی طرف منتقلی ناگزیر ہے۔  موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئےہر سال 4.5 ٹریلین ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے۔

کلائمیٹ ایکٹوسٹس کے بقول دنیا بھر کی پولیٹیکل ایلیٹ کے یہ سہانے خواب اور وعدے اپنی جگہ ۔  لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ترقی پذیر ممالک اُس تباہی کا شکار ہیں جس کے وہ ذمہ دار نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ امیر ممالک کو منصفانہ اور ہمدردانہ درست فیصلے کرنا ہوں گے۔ فوسل فیول انڈسٹریز کو ریگولیٹ کرنا ہو گا۔ کاربن کے اخراج پر پر ٹیکس کا نفاذاور فوسل فیول پر سبسڈیز ختم کرنا ہو گی۔ صرف حکومتی اقدامات پراکتفا کرنا ہی کافی نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ فیول کی ٹرانسفرمیشن کے لئے سالانہ پانچ ٹریلین ڈالر کی ضرورت  ہےجس  کے لئے انٹرنیشنل فنانشل سسٹم کو بھی متحرک کرنا ہو گا۔ یقینی بنانا ہو گا کہ تمام فنڈز مستحق کم آمدنی والے ممالک تک پہنچیں تاکہ دیرپا  ترقی یقینی بنائی جا سکے۔ بل گیٹس نے بھی کانفرنس کےدوران تسلیم کیا  ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے افریقہ اور جنوبی ایشیا کے کسان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ترقی کی دوڑ میں یہ ہماری ترجیح ہونی چاہیئے۔

آزاد کلائمیٹ ایکسپرٹس متفق ہیں کہ دنیا کو کلائمیٹ چینج سے متعلق جو مسائل درپیش ہیں،اُن سے متحد ہو کر ہی نمٹا جاسکتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو مزید ادھورے مگر سہانے خوابوں۔ سرابوں ۔ ادھورے وعدوں  اوردعوں کی نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کو فعال کرنے کےلئےٹھوس لائحہ عمل اور اعلان کردہ 57 ارب ڈالر کو غریب ملکوں کے خزانوں اور وہاں سے شفاف انداز میں مستحق کمیونٹیزتک پہچنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کئی ممالک میں کلائمٹ ایکٹوسٹس مطالبہ کر رہے ہیں کہ لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کے تحت جس رقم کے وعدے کئے جا رہے ہیں، وہ مستحق ملکوں تک جلد سے جلد پہنچانے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔

سچ تو یہ ہے کہ کلائمیٹ جسٹس چمچماتی جگماتی جدید دنیا پر غریب ممالک کا وہ قرض ہے جو اُسے ہر حال میں واپس کرنا ہوگا۔