آسٹریلیا میں اپنے ڈیڑھ ماہ کے قیام کے دوران میری کوشش ہوتی تھی کسی محفل میں پاکستانی سیاست پر میں کم سے کم بات کروں، میرے اعزاز میں منعقدہ تقریبات میں جب کچھ دوست مجھ سے پاکستانی سیاست پر بات کرنے کی کوشش کرتے میں ہاتھ باندھ کر اُن سے گزارش کرتا وہ کسی اور موضوع پر مجھ سے بات کر لیں کہ”اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں سیاست کے سوا“، اکثر دوست میری اس گزارش کو مان لیتے تھے، وہ دوسرے موضوعات پر مجھ سے بات کرتے، جن میں کچھ صحافتی و ثقافتی موضوعات ہوتے تھے، اس موضوع پر دیر تک ہماری گفتگو ہوتی پاکستانی ڈراموں میں لچر پن روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، آسٹریلیا میں مقیم بہت سے دوستوں کا یہ خیال ہے پاکستان میں طلاق کی شرح بڑھنے میں ہمارے ٹی وی ڈراموں کا کردار بہت اہم ہے، اس کے علاوہ معاشرے میں مزید بگاڑ ان ڈراموں کی وجہ سے ہی پیدا ہو رہے ہیں، یہی شکوہ ایک عظیم فنکارہ عظمیٰ گیلانی کو بھی تھا جو فن کی دُنیا سے شاید اسی وجہ سے الگ تھلگ ہو کر مستقل طور پر اب آسٹریلیا شفٹ ہو چکی ہیں اور وہاں کچھ فلاحی اداروں سے وابستہ ہو اپنا سارا وقت انسانی خدمت کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں، ہماری صحافت کے حوالے سے بھی ہمارے اوورسیز پاکستانیوں کو بہت گلے شکوے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں پاکستانی صحافت میں بھی اُسی طرح کے بگاڑ پیدا ہو چکے ہیں جو پاکستانی سیاست میں ہو چکے ہیں، ایک صاحب نے فرمایا ”شورش کاشمیری نے پاکستانی سیاست کے بارے میں فرمایا تھا ”میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو۔۔ گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں۔۔“ یہ شعر اب ہماری صحافت پر بھی فٹ بیٹھتا ہے، میں اپنے ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرتا تھا “جب پُورا معاشرہ بداخلاق ہو اُس کے کسی ایک شعبے یا ادارے کو اُس سے الگ نہیں کیا جاسکتا، ایک کرپٹ اور کریمینل سسٹم میں یہ ممکن ہی نہیں کوئی ادارہ یا شعبہ اُس سے وابستہ رہ کر کوئی مختلف کام کرے، جب تک پورا سسٹم ٹھیک نہیں ہوتا اُس سے جُڑے کسی ادارے یا شعبے کو ٹھیک کرنے یا اُس کے ٹھیک ہونے کی خواہش محض حماقت ہے“، بے شمار دوست مجھ سے اتفاق کر لیتے تھے، کچھ دوست ایسی بحث چھیڑ کے بیٹھ جاتے تھے میں جس کے جواب میں خاموشی بہتر سمجھتا تھا، مثلاً ایک صاحب نے ایک معروف تجزیہ نگار و قلم کار کا نام لے کر مجھ سے کہا میں پاکستان واپس جا کر اُن سے گزارش کروں وہ اپنے پروگرام میں اتنی اُونچی آواز میں بات نہ کیا کریں، اس سے ہمارے بچوں پر بُرا اثر پڑتا ہے، پاکستانی معاشرے میں اس وقت عدم برداشت و دیگر بداخلاقیوں کی جس ”سموگ“ کا راج ہے اُس میں کمی کی ضرورت ہے“، اُن کی خواہش تھی وہ تجزیہ نگار و قلم کار دھیمے لب و لہجے کو فروغ دیں، میں اُن کی بات سُن کر اس لئے خاموش رہا ایک بار میں نے اُن محترم تجزیہ نگار و کالم نگار کی خدمت میں عرض کیا تھا ”سر آپ اپنی گفتگو میں آگ لگا دیتے ہیں، تھوڑے دھیمے لب و لہجے میں بات کیا کریں، کچھ اْمید دلایا کریں، لوگوں کو حوصلہ دیا کریں“، وہ بولے ”میری آگ ہی تو بکتی ہے“، اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا جب لوگ اُن کا یہ جارحانہ انداز پسند کرتے ہیں اور یہ انداز اْن کی آمدنی میں مسلسل اضافے کا باعث بھی بنتا ہے تو وہ اس سے گریز کیوں کریں؟“۔۔ اپنی طرف سے وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے، اب دھیمے لب و لہجے میں کوئی بات کرے لوگ اسے اْس کی شرافت سمجھتے ہیں اور شرافت کو پاکستان میں اب ایک ”کمزوری“ سمجھا جاتا ہے، اس قسم کے لوگوں کو ”ریٹنگ“ ہی نہیں ملتی، ایک دو اینکرز پر قُدرت ضرور مہربان ہے کہ اُن کا نرم لب و لہجہ کی بھی اچھی خاصی”ریٹنگ“ ہے ورنہ عمومی طور پر صرف ایسے اینکرز کوہی پسند کیا جاتا ہے جو بولنے اور بکنے میں کوئی تمیز نہیں رکھتے، میں اپنے کچھ صحافتی دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں ہمارے اورسیز پاکستانیوں کو جہاں بہت سے گلے شکوے اپنے سیاستدانوں، اُنہیں پالنے، باندھنے یا کھولنے والوں سے ہیں وہاں کچھ گلے شکوے اُنہیں اپنی صحافت سے بھی ہیں جو کسی حد تک جائز بھی ہیں، اُن کے خیال میں ہماری ”صحافت انڈسٹری“ اپنی جائز آزادی حاصل کرنے کی خواہشمند بھی اب نہیں رہی، جدوجہد کرنا تو دُور کی بات ہے، مزاحمتی صحافت پاکستان میں آہستہ آہستہ اب دم توڑتی جا رہی ہے، اوورسیز پاکستانیوں کو اس پر بڑی تشویش ہے۔۔ ایک اور غم و غصہ اُنہیں پاکستان کے نظام عدل پر ہے، اُن کا کہنا ہے جب تک پاکستان میں وکیل کے بجائے جج کرنے کا سلسلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوگا پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکتا، جب تک ہماری عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہو کر صرف اور صرف آئین پاکستان کے تابع نہیں ہوگی تباہی بڑھتی جائے گی، آسٹریلیا میں بے شمار لوگوں نے مختلف محفلوں میں مجھ سے سوال کیا ”بظاہر آئین پسند چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائر عیسی کے آنے کے بعد بھی آئین پاکستان کی مکمل پاسداری کا سلسلہ ابھی تک کیوں شروع نہیں ہو سکا؟ آئین پاکستان واضع طور پر حکومت ختم ہونے کے ٹھیک نوے روز بعد الیکشن کروانے کا حکم دیتا ہے، اس حوالے سے آئین کی جو پامالی ہوئی اُس کو مسلسل نظر انداز کیوں کیا جارہا ہے؟ اُس کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں کیوں نہیں لایا جاتا؟ اُنہیں کوئی سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ اُلٹا اُن کی تابعداری کا تاثر کیوں دیا جاتا ہے؟“، میں ان سارے سوالات سے بچ نکلنے کی کوشش میں عرض کرتا تھا ”موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کے خوف ہی کی وجہ سے 8 فروری کو الیکشن کروانے کی تاریخ دی گئی ورنہ ارادے یہ تھے (جو اب بھی کسی نہ کسی صورت میں قائم ہیں) الیکشن کے بجائے کوئی اور سسٹم لاگو کر دیا جائے، اصل میں ہماری اصل قوتیں عام انتخابات میں اُنیس بیس کا فرق مینیج کرنے کی تجربہ کار ہیں یا ایڑی چوٹی و دیگر اعضاء کا پُورا زور لگا کر زیادہ سے زیادہ اٹھارہ بیس کا فرق مینیج کر لیا جاتا ہے، اس بار یہ فرق اتنا زیادہ ہے اُسے مینیج کرنے کا تجربہ حاصل کرنے میں ابھی وقت لگے گا، اب دیکھتے ہیں ناتجربہ کاری میں کیا ایسی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے جس کا کم سے کم نقصان اس مُلک کا ہو، جو”تیور“ اصلی قوتوں کے دکھائی دیتے ہیں اْس کے مطابق تو یوں محسوس ہوتا ہے کسی مزید نقصان کی اُنہیں کوئی پروا ہی نہیں ہے، سب سے بڑا غم و غصہ اوورسیز پاکستانیوں کو یہ ہے محض کچھ ذاتی نوعیت کے مفادات کے لئے ایک پارٹی کی حکومت ختم کر کے ایک بار پھر ایک ایسی پارٹی کو اقتدار سونپ دیا گیا جس سے وابستہ لوگوں نے پاکستان کی برباد کاری میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے اب پھر اُنہیں اقتدار سونپنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، چوروں اور ڈاکوؤں کی ایک بار پھر سرپرستی کرنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں اس کے باوجود عوام یا اوورسیز پاکستانی اُن سے والہانہ محبت کریں، اْن کے ترانے گائیں، وہ یقین کریں یہ ممکن نہیں ہے۔۔