ایچیسن فیلوز سے کرائم فیلوز تک

حقیقت یہ ہے کہ مجھے عمران نیازی سے گھن آنا شروع ہو چکی ہے۔ کیا کوئی شخص اپنے قول وفعل کے حوالے سے اتنا مکروہ بھی ہو سکتا ہے کہ و ہ سچ جسے ایک دنیا جانتی ہو، صرف سزا کے خوف یا ہیرو شپ چھن جانے کے ڈر سے، اُس سچ سے صاف انکار کردے۔ میں نے ہمیشہ کھلے دل سے اقرار کیا ہے کہ عمران نیازی کا ساتھ دینا زندگی کی بدترین غلط تھی لیکن غلطیاں انسان ہی کرتے ہیں میں نے کبھی کسی جن یا دوسری مخلوق کو کفارے کے نفل پڑھتے نہیں دیکھا۔ وہ اپنی زندگی ایک ”شہزادے“ کی طرح گزارنا چاہتا تھا اور خواہش رکھتا تھا کہ اُس کی سوچ پرکوئی شخص تنقید تو دور کی بات، اُس کی رائے پر رائے بھی نہ دے، لیکن ایسا اقتدار میں آنے کے بعد ہوا ورنہ اقتدار سے پہلے وہ ہر نرم گرم بات نہ صرف سن لیتا تھا بلکہ بعض اوقات تو عمل کرنے کے گھناؤنے جرم کا بھی مرتکب ہو جاتا تھا۔ اول تو عمران نیازی کا مستقبل اب میر مرتضی بھٹو کے ماضی سے مختلف نہیں ہو گا لیکن یہ طے ہے کہ جو لوگ آج بھی خلوص نیت سے اُس کے ساتھ ہیں اگر عمران نیازی کبھی مقدمات کے حصار سے نکل بھی گیا اور اُسے بھی اِنہیں عدالتوں کی نظرِ التفات میسر آئی جو آج کل نواز شریف کو میسر ہیں اور اقتدار ایک بار پھر خدا نخواستہ عمران نیازی کے دروازے پر آ گیا تو بُر ے وقت کے ساتھیوں کی جگہ نئے یا زیادہ طاقتور لوگ لے لیں گے۔ عمران نیازی کے حوالے سے یہی سچ ہے جو اگر کبھی حالات بدلے تو ثابت ہو جائے گا لیکن اِس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ گو کہ ذوالفقار علی بھٹو مقتول ایک بڑے قانون دان اور بلا کے سیاست دان تھے لیکن انہیں بھی بلیک وارنٹ جاری ہونے کے باوجود اپنی موت کا یقین نہیں تھا۔

سائفر کیس کے حوالے سے اڈیالہ میں جاری عدالتی کارروائی سے پہلے عمران نیازی کے وکیل کی آمد میں تاخیر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صحافیوں نے سابق چیئرمین تحریک انصاف سے گفتگو کی جو انتہائی دلچسپ تھی۔ عمران نیازی کا کہنا تھا: ”میں انتہائی خطرناک آدمی ہوں۔“ بندہ خدا! یہ بات تو اب پوری قوم جان چکی ہے۔ آپ کو خطرناک ہونے کی وجہ سے اُن لوگوں کے ساتھ بند کردیا گیا ہے جن کو سماج کیلئے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ سابق چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ ”مجھ سے نہ کوئی ملا نہ مذاکرات کئے۔“ اب اس کا جواب تو چیئرمین تحریک انصاف کو خود ہی دیناچاہیے کہ انہوں نے ویلے کی نماز قضا کردی تھی سو اب کو ویلے کی ٹکریں مارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک وقت تھا جب سب آپ کو مذاکرات کا مشورہ ہی دے رہے تھے لیکن آپ ”چوروں اور ڈاکوؤں“ کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار نہیں تھے بلکہ اُس کے جواب میں آپ عجیب و غریب نعرے لگواتے تھے جن کا آپ کی سیاست سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ عمران نیازی نے طویل عرصہ جیل میں رہنے کے خدشے کے سوال کا جواب دیتے ہوا کہا کہ ”مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا جان دینے کو تیار ہوں۔“بالکل درست ہے اِس سے کسی کو بھی فرق نہیں پڑتا لوگ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں اور جان لینے کا ذکر توکس نے کیا ہی نہیں اور نہ ہی جان مانگی ہے لیکن اِس کے باوجود اگر آپ جان دینا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو ”حفاظتی بند“ رکھنا تو اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ جب عمران نیازی سے 9 مئی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے انتہائی اعتماد سے کہا کہ ”نو مئی لندن پلان کا حصہ تھا مجھے غیر آئینی طور پر پکڑا گیا۔ اڑتالیس گھنٹوں میں دس ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جبکہ یاسمین راشد واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ لوگ اندر نہ جائیں۔“ اب 9 مئی کے حوالے سے یہ کہنا کہ یہ لندن پلان تھا تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آپ کی سیاسی جماعت کے لوگ میاں نواز شریف کے ساتھ رابطے میں تھے کیونکہ وہاں موجود ایک ایک بندہ تو پہچانا گیا ہے۔ جہاں تک ڈاکٹر یاسمین راشد کی بات ہے تو انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی دو فوٹیج ہیں۔ پہلی فوٹیج لبرٹی سے روانگی کے وقت بنائی گئی جس میں ڈاکٹر صاحبہ سے جب سوال کیا گیا کہ آپ کدھر جا رہے ہیں تو انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پرکہا کہ ”ہم کور کمانڈر ہاوس جا رہے ہیں، دوسری فوٹیج کور کمانڈر ہاوس کے باہر کی ہے جب وہ پی ٹی آئی کے ورکروں کو باہر آنے کا کہہ رہی ہیں۔ یعنی اُس وقت وہ نیتِ جرم جو لبرٹی سے روانگی کے وقت باندھی گئی تھی، جرم مکمل ہو چکا تھا۔کورکمانڈر ہاؤس سے باہر بلانے کی فوٹیج ڈاکٹر یاسمین راشد کا اقبال جرم ہے نہ کہ اُن کے بے گناہ ہونے کا ثبوت۔ 9 مئی کسی گلی محلے کا بلواہ تو تھا نہیں کہ 751 کا مقدمہ بنا کر بعد ازاں صلح کروا دی جاتی۔ اِس جرم کی تیاری لاہور میں بہت دور تک کی گئی تھی سو گرفتاریاں بھی اُسی دائرے کے اندر ہونی تھیں اور پھر ابتدائی گرفتاریوں میں تو وہاں سے گزرنے والے بھی گرفتارہو گئے تھے جو اب گھروں کو واپس آ چکے ہیں اور حقیقی مجرم جیلو ں میں اپنی سزا کے منتظر ہیں۔وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے صحافیو ں کی اس گفتگو میں اُس وقت حصہ ڈالا جب اُن سے نئے نامزد چیئرمین تحریک انصا ف کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہ: ”مجھے کسی عہدے کی ضرورت نہیں خان کیساتھ کل بھی تھا اور آج بھی ہوں آئندہ بھی رہوں گا۔“ اب کوئی عقل مند پوچھے کہ شاہ جی! آپ سے کس نے پوچھا ہے کہ آپ عمران نیازی کے ساتھ ہیں یا نہیں اور کس نے دریافت کیا ہے کہ آپ کو عہدہ کی لالچ ہے یا آپ کا جینا مرنا کس کے ساتھ ہے، سیدھا سا سوال تھا کہ نئے چیئرمین کے بارے میں بتائیں لیکن چونکہ آپ نے چیئرمین بننے کا جو نقشہ بنایا تھا اُس کا انجام بھی فیض حمید کے آرمی چیف بننے ایسا ہی ہوا ہے سو آپ کے ذہن سے چیئرمین شپ نکل ہی نہیں رہی۔ باقی رہی بات عمران نیازی کے ساتھ رہنے کی تو اصل بات یہ ہے کہ کبھی آپ ایچیسن فیلو تھے لیکن اب آپ کرائم فیلو ہیں سو مقدمات کے فیصلو ں تک آپ ساتھ ہی ہیں اور کسی نے آپ کو جانے بھی نہیں دینا ا س لئے آپ پریشان نہ ہوں۔ باقی نوزائیدہ چیئرمین تحریک انصاف بھی ایچیسن کالج سے ہی لیا گیا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف نے مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”جو انہوں نے بشریٰ بی بی کے سابقہ خاوند کے ذریعے کرایا ہے جھوٹا الزام لگایا ہے اور انتہائی اخلاق سے گرے ہوئے لوگ ہیں۔ قسم اٹھانے اور قرآن پر ہاتھ رکھنے کیلئے تیار ہوں بشری کو اس دن دیکھا جس دن میرا نکاح ہؤا۔ “بلاشبہ مانیکا سے انٹرویو دلانے والے گھٹیا لوگ تھے لیکن اُس سے گھٹیا کون ہو گا جو ایک ایسے واقعہ کی تردید کرنے کیلئے قرآن اٹھانے کیلئے تیار ہو جائے جس واقعہ کو بیسیوں لوگ جانتے ہیں اور عون چوہدری جس نے اس نکاح میں مرکزی کردار ادا کیا اِن وارداتوں پر شہادت بھی دے چکا ہے۔ عمران نیازی کا بیڑہ غرق کرنے میں جھوٹ نے مرکزی کردار ادا کیا لیکن وہ آج بھی جھوٹ سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔ عمران نیازی خود ایک چٹا کاں ہے جس کی کائیں کائیں کبھی بند نہیں ہو گی۔ اُس کے بارے میں میری یہی آخری رائے ہے۔