وکلاء گردی، ذہنی اختراع یا حکمت عملی!

خاور مانیکا کے خلاف پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی مہم کا جائزہ لیا جائے تو یہ اعتراض نہیں ہے کہ اس نے عمران اور بشریٰ کے نکاح کو غیر شرعی یا ان دونوں کے باہمی تعلقات کو اخلاقیات سے ہٹ کر قرار دیا ہے بلکہ اعتراض اور زیادہ غصہ اس بات پر ہے کہ پانچ سال خاموشی کیوں اختیار کیے رکھی۔ بہر حال یہ عمران خان، اس کے حامیوں اور خاور مانیکا کا آپس کا معاملہ ہے البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ اگر پہلا نکاح غیر شرعی نہیں تھا تو مفتی سعید خان نے دوسرا نکاح کیوں پڑھایا اس کا مطلب ہے پہلا نکاح مشکوک ضرور تھا۔ دوسرا خاور مانیکا کا زلفی بخاری پر اس کی عدم موجودگی میں آنے جانے کے الزام کا تعلق ہے تو جس کسی نے بھی بشریٰ اور زلفی بخاری کی وڈیو کال سنی ہے اس کے کان ضرور کھڑے ہوں گے۔ ایک معروف اخبار کے نوجوان کالم نگار جس نے عمران خان کی ہر صورت حمایت والد محترم سے وراثت میں پائی ہے، بشریٰ بی بی خان کے خلاف بیان دے سکتی ہے، کے عنوان سے بڑی شدت سے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ جتنی رسوائی ہونی تھی ہو چکی اور اگر مزید رسوائی مقدر بنتی ہے تو بھی بشریٰ ہر صورت عمران کے ساتھ کھڑی رہے کیونکہ عون چودھری، ریحام خان کے انکشافات اور عائشہ گلالئی کے اسی اخبار کے اینکر کو دکھائے گئے میسجز سے عمران کا کچھ نہیں بگڑا۔ خاور مانیکا کے کہنے سے بھی کچھ بگڑنے والا نہیں۔

ایسے ہی عمران کی حمایت میں جنون کی حدیں پار کرنے والے ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جس کا جنون پاگل پن کی حدوں کو چھوتا ہوا یوں محسوس ہوا اس نے کہا اگر میرے باپ اور عمران میں جھگڑا ہو جائے تو میں عمران کا ساتھ دوں گا۔

کچھ عرصہ قبل شاہ فیصل ٹاؤن کے وسیم صدیقی سے تعارف ہوا ان کے ڈرائنگ روم میں ان کے بائیس تیئس سالہ کزن شکیل سے بات چیت ہوئی۔ وسیم صدیقی ایم کیو ایم کے پرجوش حامی ہیں۔ ہنستے ہوئے چٹکی لی، یہ شکیل پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ایکٹوئیٹ ہے۔ مجھ سے کئی گنا زیادہ پر ہاتھ مارتا ہے۔ ساتھ ہی بات آگے بڑھائی، یہ پی ٹی آئی ائندہ الیکشن میں تمام قومی و صوبائی نشستوں پر وکلاء اور خواتین کو ٹکٹ دے رہے ہیں۔ گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے میں نے کہا کہ ہاں اس حوالے سے عمومی تاثر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مختلف الزامات لگا کر الیکشن میں حصہ لینے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس لئے وکلاء کو امیدوار بنایا جائے گا۔ جن کے بارے میں خیال ہے ان کی گرفتاری آسان نہیں ہوگی۔ ایسی ہی صورت خواتین کی ہوگی۔ شکیل نے میری بات سے جزوی اتفاق کیا اور کہا دیکھیں ہمارے ستر، اسی فیصد لوگوں کو استحکام پارٹی میں بھیج دیا گیا ہے۔ خاصے روپوش ہو گئے۔ باقی کی گرفتاریوں کا خدشہ ہے۔ اس کا مطلب ہے ہمیں الیکشن سے آؤٹ کر دیا جائے گا مگر ہم نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں۔ اگر ہم نہیں تو تم بھی نہیں۔ فرض کیا ہمارے لوگ نہیں جیتیں گے مگر وہ دوسروں کی جیت کو خراب تو کر سکتے ہیں۔ تصور کیا جائے کراچی سے پشاور تک ہر پولنگ سٹیشن سے دھاندلی کا شور اٹھے، بائیکاٹ کی خبریں چلیں، اس پر احتجاجی مظاہرے شروع ہو جائیں۔ ملک کی عدالتوں میں نتائج رکوانے کیلئے سٹے آرڈرز کی درخواستیں دائر کر دی جائیں۔ الیکشن کمشن میں عذر داریاں داخل کر دی جائیں تو ایسے الیکشن کو کون صحیح الیکشن مانے گا۔ اس کام کیلئے وکیل امیدوار سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔

یہ پی ٹی آئی کا واقعی وکلاء گردی کا منصوبہ ہے یا شکیل جیسوں کے ذہن کی اختراع ہے۔ جب تک ایسا کچھ نہ ہو جائے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی تاہم یہ قابل غور ضرور ہے۔ وسیم صدیقی نے موضوع بدلنے کیلئے کہا یہ کہ زرداری اور بلاول میں پھڈا پڑ گیا ہے۔ اس کا کیا ہوگا۔ عرض کیا کچھ بھی نہیں ہوگانہ اسے پھڈا سمجھنا چاہیے۔خبریں آئیں گی بختاور اور آصفہ نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ سمجھا بجھا کر بھائی کی ناراضگی دور کر دی ہے اور بلاول نے ایک سعادت مند بیٹے کی طرح باپ کے سامنے سر جھکا دیا ہے اوراپنی یقینی وزارت عظمیٰ سے دستبرداری کا کڑوا گھونٹ بھر کر یہ مالا زرداری کے گلے میں ڈال دی اور اس طرح بلاول کے حوالے سے بچہ اور ناتجربہ کار ہونے کے تاثر سے جو نا موافق فضا بن رہی تھی اس میں ٹھہراؤ آجائے گا۔ اور اس طرح زرداری کے خود ڈرائیونگ سیٹ پر آنے سے سندھ میں پارٹی کے اندر جو ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی تھی شاید اس کے آگے بند بندھ جائے۔ بہرحال یہ اندازہ ہی ہے۔

جہاں تک کراچی کا تعلق ہے ن لیگ قومی اسمبلی کی چار سے پانچ اور سندھ اسمبلی کی آٹھ سے دس نشستوں میں دلچسپی رکھتی ہے۔ باقی حصہ بقدر جثہ ایم کیو ایم، بی ڈی اے، جے یو آئی میں تقسیم ہوں گی۔ اے این پی کے شاہی سید اور جے یو پی کے انس نورانی کو بھی ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ ن لیگ اور جے یو آئی کا مشترکہ ہدف شمالی سندھاور جی ڈی اے کے اشتراک سے جنوبی سندھ ہے۔ پورے سندھ میں پیپلز پارٹی شاید کسی سے اتحاد نہ کرے البتہ کراچی اور حید ر آباد میں حیران کن اتحاد پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ دوسری حیران کر دینے والی حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے نوے، پچانوے فیصد وابستگان جس قدر جماعت اسلامی سے ذہنی طورپر دور ہیں جماعت اسلامی کے لوگ اتنا ہی پی ٹی آئی کے قریب ہیں۔ وہ میئر شپ کے الیکشن کی تلخیاں بھلا کر ایم کیو ایم اور ن لیگ کو شکست دینے کی حکمت عملی کے طور پر کراچی کی حد تک پیپلزپارٹی سے ہاتھ ملالیں۔ کراچی کے بعض صحافی اور سیاسی حلقے اس امکان کو بھی رد نہیں کر رہے۔ بہر حال یہ سب انتخابات سے قبل کے اندازے او ر تخمینے ہیں جو ایسی صورت حال میں معمول کا حصہ ہوتے ہیں۔ اصل حقیقت تو 9 فروری کا سورج لے کر ہی طلوع ہوگا۔ اگر 8 اور 9 فروری کی درمیانی شب سے بھی مطلع صاف ہونا شروع ہو جائے گا۔ جبکہ جنوری کے پہلے ہفتے میں کون کس کے ساتھ ہے یہ بھی واضح ہو جائے گا۔
اسرار بخاری