قانون کی پاسداری کے لیے سختی ضروری!

آج کل آپ کو ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہو گی کہ چھوٹے بچوں کو ڈرائیونگ پر مت بھیجو، پولیس براہ راست ایف آئی آر درج کر رہی ہے۔ یہ اچھا کام ہے، کم از کم جس عوام کو پولیس منت و سماجت کے بعد کہتی تھی کہ کم از کم خدارا لرننگ لائسنس ہی بنوا لو، مگر عوام کسی کھاتے میں نہیں لکھتے تھے، اب وہی عوام لائنوں میں لگ لگ کر لائسنس بھی بنوا رہے ہیں اور پرچے بھی کٹوا رہے ہیں۔ یہ سب اس وقت سے شروع ہوا جب گزشتہ مہینے لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ایک کم سن ڈرائیور نے اپنی گاڑی سے 6 افراد کو جان بوجھ کر کچل ڈالا۔ جی ہاں! یقینا یہ واقعہ آپ کی نظر سے ضرور گزرا ہو گا کہ لاہور کے علاقے ڈیفنس فیز 7 میں 6 افراد کو ایک کم سن ڈرائیور نے جان بوجھ کر اپنی گاڑی کے ذریعے ہٹ کر کے مار دیا۔ یہ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ملزم افنان جس کی عمر 14 سے 15سال بتائی جاتی ہے نے وائی بلاک ڈیفنس سے گاڑی میں بیٹھی خواتین کا کافی دیر تک پیچھا کیا۔ اس دوران متاثرہ گاڑی کے ڈرائیور حسنین نے کئی بار گاڑی کی رفتار بھی تیز کی کہ شاید اس طرح افنان ان کا پیچھا کرنا چھوڑ دے تاہم ملزم نے گاڑی کا پیچھا نہیں چھوڑا اور مسلسل خواتین کو ہراساں کرتا رہا۔ وائے بلاک نالے پر متاثرہ گاڑی کے ڈرائیور حسنین نے گاڑی روک کر افنان کو ڈانٹا۔ دوسری گاڑی سے حسنین کے والد نے بھی ملزم افنان کو سمجھایا کہ پیچھا مت کرو لیکن اس دوران ملزم افنان دھمکیاں اور گالیاں دیتا رہا۔ افنان نے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ میں دیکھتا ہوں تم لوگ ڈیفنس میں گاڑی اب کیسے چلاتے ہو۔ اس کے بعد حسنین بہن اور بیوی کو لے کر آگے نکلا تو ملزم نے دوبارہ پیچھا شروع کر دیا۔ ملزم افنان نے 160 کی سپیڈ سے گاڑی گھما کر خواتین والی گاڑی سے ٹکرا دی۔ ذرائع کے مطابق حادثے کے بعد حسنین کی گاڑی 70 فٹ روڈ سے دور جا گری اور کار سوار تمام افراد جاں بحق ہو گئے، بعد ازاں 4 افراد ملزم کو چھڑانے پہنچے لیکن لوگوں کا غصہ دیکھ کر بھاگ گئے۔ اس خوفناک حادثے کے بعد یقینا نگران وزیر اعلیٰ نے سخت احکامات جاری کیے ہیں، جس کے بعد اوور سپیڈ، کم سن ڈرائیورز اور بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والوں کے خلاف کم و بیش 20 ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے ہیں، جسے دیکھ، سُن کر اچھا لگا مگر کوئی بتائے گا کہ کیا یہ مستقل حل ہے؟ نہیں یہ قطعاً مستقل حل نہیں ہے، کیوں کہ قانون پر عمل درآمد کے لیے کسی حادثے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ ان پر پورا ہفتہ، 24 گھنٹے سالہا سال تک عمل کرنا چاہیے۔ لیکن یہاں ہوتا کیا ہے کہ اس قسم کے حادثات کے بعد ہم، آپ یا کوئی بھی تھوڑی بہت اشک شوئی کے بعد خاموشی اختیار کر کے کسی نئے حادثے کا انتظار کرنے لگتا ہے، مگر کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اْس خاندان پر کیا گزرتی ہو گی جسے آپ، ہم اور ادارے بے سر و سامانی کے حال میں بھول جاتے ہیں، وہ یا تو قاتلوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، یا صلح صفائی کی طرف راغب ہو جاتا ہے یا اللہ کے لیے معاف کر دیتا ہے۔ خیر جب قوانین سے انسان خوفزدہ نہیں ہو گا تو ایسا ہی ہو گا۔ یہاں تو لائسنس بھی گھر بیٹھے مل جاتے ہیں، اب تھوڑی سی سختی ہوئی ہے تو محض تصاویر یا کیمر ے کا شوشا چھوڑا گیا ہے، مگر اس میں بھی دو نمبر اور کرپشن آنا شروع ہو گئی ہے، گاڑیوں کی فٹنس کا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں قانون کا خوف ہی انسان کو اچھا شہری بناتا ہے، کیا امریکا یا کسی مہذب ملک میں اس حوالے کوئی سوچ سکتا ہے کہ بچہ گاڑی لے جائے، یا بغیر لائسنس کے کوئی گاڑی چلا سکے؟ امریکا میں ہر قسم کی آپ کو چھوٹ مل سکتی ہے مگر نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کو عمر قید کے لیے بھیج دیا جائے۔ اس کے علاوہ وہاں معمولی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھی سیکڑوں ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور بغیر لائسنس کے تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آپ گاڑی چلا سکیں گے! بعض اوقات غلطی پر غلطی کرنیوالے کا لا ئسنس بھی کینسل ہو جاتا ہے تین سال پرانی گاڑیوں کو ہر سال فٹنس ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے اگر گاڑی ان کے معیار پر پورا نہیں اترتی تو وہ روڈ پر نہیں آ سکتی۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں اگر آپ کے پاس لائسنس نہیں ہے، تو آپ کی گاڑی کو بند بھی نہیں کیا جائے گا۔ محض 500 سو روپے جرمانہ کر دیا جائے گا۔ یعنی آپ نے محض 500 روپے میں اسے گھر جانے دیا تاکہ وہ راستے میں درجنوں معصوم جانوں کی زندگی سے کھلواڑ کر سکے۔ آپ امریکا کو چھوڑیں دوسرے ممالک کی مثالیں لے لیں، جیسے دبئی کی مثال لے لیں وہاں بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والے پر باقاعدہ مقدمہ دائر کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ شخص شہر میں ”بم“ لیے پھر رہا تھا۔ پھر آپ ملائیشیا کی مثال لے لیں وہاں صرف وہی شخص ڈرائیونگ کر سکتا ہے جس کے نام پر گاڑی ہو، مگر ہمارے ہاں چار دن ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے والا پانچویں دن ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے اور ہو سکے تو وہ اگلے ہی دن گاڑی موٹروے پر ڈال کر مری لے جائے۔۔۔ کیوں کہ اُسے علم ہے کہ جرمانے بہت کم ہیں، لہٰذا کچھ لے دے کر جان چھوٹ جائے گی۔ بہرحال جہاں قانون کاخوف ہوتا ہے، وہیں مہذب قومیں بھی جنم لیتی ہیں۔ یہاں بھی پہلے سے بنے ہوئے قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ملزمان کو دو سو فیصد یقین ہو کہ وہ چھوٹ جائیں گے۔ آپ اسی کیس میں دیکھ لیں کہ ابھی تو تادم تحریر ملزم افنان کی ضمانت ان کے وکلا نے واپس لے لی ہے، کیوں کہ بقول وکلا کے نگران وزیر اعلیٰ کے احکامات کے بعد مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ لیکن آپ دیکھیے گا کہ تگڑے وکلا کے تگڑے دلائل کے بعد ہمارا قانون سرنڈر کر جائے گا۔ پھر ڈرایا دھمکایا جائے گا اور ایک آدھ شخص ترلے منتیں والا بھی شامل کر لیا جائے گا جو لواحقین کو کہے گا کہ چلیں چھوڑیں بچہ تھا، غلطی ہو گئی۔ اس کا مستقبل خراب ہو جائے گا، وہ ساری زندگی سنبھل نہیں پائے گا۔ پھر کہا جائے گا، کہ قسمت میں یہی لکھا تھا، ان کی زندگی اتنی تھی، ان کی اسی طرح ہی لکھی ہوئی تھی، بس بہانہ بنا ہے، وغیرہ وغیرہ دوسری جانب والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی اس انداز میں تربیت کریں کہ انہیں قانون کا خوف ہو، وہ کبھی والدین کی پوزیشن کا غلط استعمال نہ کریں۔ اُن کی غلط کام کرنے پر کبھی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ رہی بات روڈ ایکسیڈنٹس کی تو اس حوالے سے ایک الگ ایسا ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جو ہمہ وقت اسی پر کام کرے، اس ادارے میں کسی کا عمل دخل نہ ہو تاکہ اس اہم ترین مسئلے کو سیاست سے ہٹ کر حل کیا جائے۔ ورنہ جیسے چل رہا ہے ویسے ہی سسٹم چلنے دیں کیوں کہ یہ ہماری ”روایات“ ہیں کہ عام لوگوں کو ہلاک کرنے سے کوئی طوفان نہیں اٹھتا۔ کوئی قیامت نہیں آتی۔ کسی قانون کے ماتھے پر شکن نہیں پڑتی۔ کوئی طاقت، از خود نوٹس نہیں لیتی۔