ہنود و یہود گٹھ جوڑ

غزہ سے لیکر مقبوضہ کشمیر تک کفار کی بربریت و درندگی کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف بھارت نے مودی کی سرپرستی میں مظلوم وادی میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ پورے انڈیا میں کشمیر سمیت مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے تو دوسری جانب امریکی آشیر باد میں اسرائیل نہتے فلسطینیوں کو وحشیانہ بمباری سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غزہ میں رقص ابلیس جاری ہے۔ پانی، بجلی، دوائیں اور خوراک سب بند ہے، 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے 15000 سے زائد فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہیں اور ان میں 6000 سے زائد بچے جاں بحق اور ایک ہزار سے زائد خواتین شہید ہو چکی ہیں۔ جبکہ اسرائیلی جارحیت و مظالم کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں 60 فیصد بچے اور خواتین شامل ہیں۔ غزہ کے ہسپتال لاشوں سے بھر چکے ہیں۔ اسرائیلی فورسز کی غزہ میں عمارتوں، ہسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں پر 7 روزہ جنگ بندی ختم ہوتے ہی اسرائیلی فوج نے وحشیانہ حملے شروع کر دیے ہیں۔ غزہ کے ہسپتالوں میں طبی سہولیات کی کمی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے جبکہ غزہ کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے۔ در حقیقت وحشی یورپ کو اپنی دائمی بھوک مٹانے کے لیے مسلمانوں کے خون اور گوشت کی ضرورت ہے۔ جسے وہ گاہے گاہے مختلف مسلم ممالک سے حاصل کرتا رہتا ہے۔ یورپ ایک ایسا عفریت بن چکا ہے جو ایک ایک کر کے مسلم ممالک کو ہڑپ کرنے کا ناپاک ارادہ رکھتا ہے۔ فلسطین اب اس کا ٹارگٹ ہے۔ وہ اسرائیل کے ذریعے پورے فلسطین کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے۔ جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے، انڈین گودی میڈیا کی بن پڑی ہے۔ نریندر مودی کے چیلے حماس کو دہشت گردکہتے نہیں تھکتے۔ حماس جو فلسطین کی آزادی کیلئے ”طوفان الاقصیٰ مشن“ کے تحت مظلوم فلسطینی عوام کی آزادی کے لیے لڑ رہا ہے اس میں دہشت گردی کہاں سے آ گئی؟۔ کیا آزادی کی جدوجہد دہشت گردی ہے؟۔ حماس فلسطین سے الگ کوئی تنظیم نہیں ہے۔ وہ اسی کا حصہ ہے جبکہ گودی میڈیا حماس کو فلسطین سے الگ دہشت گرد تنظیم بتاتا ہے تاکہ دنیا مظلوم فلسطینیوں سے ہمدردی تو رکھے لیکن حماس سے نفرت بھی کرے۔ گزشتہ جنگوں کو عرب اسرائیل جنگ کا نام دیا جاتا رہا ہے لیکن موجودہ جنگ فلسطین اور اسرائیل جنگ ہے۔ جو جنگ حماس لڑ رہا ہے صرف فلسطین کی آزادی کی جنگ نہیں ہے بلکہ صلیبی جنگوں کے طویل سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ مسلم ممالک پر قابض ہونا اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنا یورپی صلیبیوں کا منصوبہ ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے مسلم دشمنی، دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے فاشسٹ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جبکہ بھارت میں آر ایس ایس کے پرچارک نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے ان کی دوستی بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ جس طرح فلسطین کی سرزمین سے مسلمانوں کے علیحدہ تشخص کے خاتمہ کیلئے یہودی بستیاں آباد کی جا رہی ہیں اور ”سنچری ڈیل“ جسے ”ڈیل آف ڈیتھ“ کہا جائے تو درست ہو گا، کے تحت غرب اردن و غزہ سمیت مزید فلسطینی علاقے ہڑپ کرنے کے مذموم منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے خصوصی درجے کے ضامن آرٹیکلز A۔35 اور 370 کو ختم کر کے اسے بھی ہڑپ لیا گیا اور اب یہاں کی مسلم آبادی کا اکثریتی تناسب تبدیل کرنے کیلئے غیر کشمیریوں، ہندوؤں کو بسانے کیلئے دھڑا دھڑ رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔ بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ختم کر کے وہاں ہندوؤں کو لا کر بسانا ہے تاکہ ریاست کا اسلامی تشخص ختم کیا جا سکے۔ جب مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اقلیت میں آ جائیں گے تو بھارت استصواب رائے پر بھی راضی ہو جائے گا کیونکہ اس وقت کشمیر کا الحاق بھارت سے ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ گجرات کا قصائی ہٹلر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ہندوتوا کے خواب کو عملی جامہ پہنانے اور کشمیریوں کو ہراساں کرنے کیلئے گھروں میں گھس کر مار رہا ہے۔ ان مذموم سرگرمیوں میں بھارت کو اسرائیلی آشیرباد حاصل ہے۔ نہتے، بے گناہ کشمیریوں پر بے دریغ اسرائیلی ساختہ مہلک اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے جس کی بدترین مثال پیلٹ گن ہے جس کے سبب سیکڑوں نوجوانوں کی بینائی ضائع ہو چکی ہیں۔ کیمیائی ہتھیار بھی اسرائیل سے درآمد کیے گئے ہیں۔ بھارت اور غاصب اسرائیل کے تعلقات بہت دیرینہ ہیں، 1947ء میں اگرچہ بھارت نے فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ دیا تھا جو بعد میں اس کی منافقت کے طور پر سامنے آیا کیونکہ 1949 میں بھارت نے خود اپنے ہی فیصلے کے خلاف اسرائیل کی حمایت میں ووٹ دیدیا۔ سنگھ پریوار شروع سے ہی اسرائیل کا حامی تھا اور آخرکار 1950ء میں بھارت نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کر لیا۔ 75 سال میں فلسطین کا تنازع مسئلہ کشمیر سے بھی زیادہ بار پیش کیا جا چکا ہے۔ سیکڑوں قراردادیں اسرائیلی یہودیوں کے خلاف منظور ہو چکی ہیں لیکن امریکہ و مغربی ممالک کی دوہری پالیسیوں کی وجہ سے آج تک ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ اسرائیل ایک ناجائز اور جبری ریاست ہے جو فلسطینیوں کی اراضی ہتھیا کر ایک سازش کے تحت وجود میں لائی گئی۔ امریکہ، برطانیہ اور بھارت اسرائیل کی سرپرستی کر رہے ہیں جبکہ بھارت جبری طور پر فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے جابرانہ قبضے اور جارحانہ تسلط کو مستحکم کرنے کیلئے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ فلسطین کی حالیہ جنگ سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کا نام و نشان دنیا سے مٹانے اور انہیں نیست و نابود کرنے میں صہیونی و طاغوتی طاقتیں یکجا ہو گئی ہیں۔ ادھر مسلم اُمہ کے انتشار کی بدولت مسلمان ہی زیر عتاب ہیں۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم (او آئی سی) عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان، تیل کی دولت و معدنی ذخائر سے مالا مال ہیں جن کی 52 لاکھ فوج بنتی ہے آج غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو صہیونی جارحیت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ گذشتہ 73 برس میں اسرائیلی فوج نے 10 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کر کے سزائیں دیں جبکہ حملوں میں ایک لاکھ سے زائد گھر مسمار کیے۔ بد قسمتی سے 7 دہائیوں سے اسرائیل و فلسطین کی سرحد کے قریب کوئی فلسطینی بستی تعمیر نہیں ہوئی، درجنوں یہودی بستیاں تعمیر ہو چکی ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کی آزادی و خود مختاری کے لیے لڑنے والی حماس کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مغرب نے فلسطینیوں کو دہشت گرد اور یہودی ریاست کو دفاع کے لڑنا اس کا حق قرار دیا ہے۔ امریکہ پہلے دن سے ہی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کے وزیر خارجہ چند گھنٹوں میں ہی اظہار یک جہتی کے لیے اسرائیل پہنچ گئے تھے۔