افغانیوں کا انخلا اور معیشت

ایک وقت تھا افغان اور پاکستان دوستی کی مثال دی جاتی تھی نائن الیون کے بعد جب امریکہ افغانستان پر حملہ کرتا ہے تو سی ائی اے، را اور موساد وطن عزیز میں دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کرکے دہشت گردی کرتی ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے دہشت گردوں کے سہولت کار کون تھے۔ وہ افغانی تھے، عیسائی یا ہندوستانی لیکن اس کو بنیاد بنا کر نگران حکومت نے اگست 2023 میں غیر قانونی تارکین وطن پر زور دیا کہ وہ اکتوبر کے آخر تک رضاکارانہ طور پر پاکستان سے نکل جائیں، یہ فیصلہ، بظاہر سکیورٹی خدشات کی وجہ سے، مبینہ طور پر انسداد دہشت گردی کی وسیع تر کارروائیوں سے منسلک ہے۔ اس پالیسی کے اثرات کے پی اور بلوچستان میں مرتکز ہونے کی توقع ہے، جہاں 1.7 ملین غیر رجسٹرڈ تارکین وطن کی آبادی کا تین چوتھائی حصہ ہے۔ افغان پناہ گزین گذشتہ تقریباً چار دہائیوں سے پاکستان اور خصوصی طور پر پشاور میں چھوٹے بڑے کاروبار سے وابستہ ہیں اور پشاور میں بورڈ بازار کا نام بھی اسی وجہ سے "منی کابل” پڑ گیا تھا کیونکہ وہاں پر زیادہ تر کاروبار افغان پناہ گزینوں کے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں پناہ گزینوں کی 99 فیصد آبادی افغان ہے، 2022 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد 3.7 ملین میں سے تقریباً ایک چوتھائی، 7 لاکھ افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوئے۔ افغان باشندوں کی خاص بات یہ تھی سب ملازمت کی بجائے کاروبار کو پسند کرتے تھے چاہے وہ جوتے پالش کرنا ہی تھا۔ تمام افغان پاکستان کی معیشت میں رچ بس گئے تھے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا افغان پناہ گزینوں کی واپسی سے پشاور سمیت ملک کی معیشت پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں؟ اس کے لئے ہمارے پاس بنیادی معلومات کا ہونا ضروری ہے پشاور میں سب سے ذیادہ افغان پناہ گزین رہائش پزیر ہیں اس لئے جاننا ضروری ہے کہ جس میں افغان پناہ گزینوں کا پشاور کے کاروبار میں کتنا حصہ؟ افغان پناہ گزینوں کے پشاور کی معیشت پر اثرات کے موضوع پر جرنل آف ہیومینیٹیز، سوشل اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے 2021 میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے لیے پشاور کے مصروف کاروباری مراکز کا سروے کیا گیا تھا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کس مرکز میں کتنے افغان پناہ گزینوں کی دکانیں ہیں۔ اسی مقالے کے مطابق افغان جہاد کے بعد آنے والے افغان پناہ گزینوں میں 60 فیصد مزدور، 20 فیصد کاروباری لوگ، پانچ فیصد ہنر مند اور 15 فیصد دیگر پیشوں سے وابستہ تھے۔ پاکستان پہنچنے والے پناہ گزین تقریباً 25 لاکھ مال مویشی بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ ان مال مویشیوں میں 45 ہزار اونٹ اور 25 ہزار گدھے کاروباری مقاصد کے لیے لائے گئے تھے۔ اس وقت پناہ گزین جب پشاور سمیت ملک کے دیگر حصوں میں آباد ہونا شروع ہو گئے تو انہوں نے مختلف کاروباروں میں اپنے لیے جگہ بنا لی۔اسی طرح یہ افراد افغانستان سے سمگل شدہ امپورٹڈ سامان کے کاروبار سے بھی وابستہ ہو گئے اور پشاور اس تجارت کے لیے ایک مرکزی منڈی بن گئی۔ یوں آہستہ آہستہ ان پناہ گزینوں نے دیگر کاروباروں میں بھی اپنا لوہا منوانا شروع کر دیا اور یوں زیادہ تر پناہ گزینوں نے بیرونی امداد کے بجائے خود کمانا شروع کر دیا۔ اس مقالے کے لیے قصہ خوانی بازار، افغان کالونی، پشاور کنٹونمنٹ اور یونیورسٹی ٹاؤن کا سروے کیا گیا تھا۔ قصہ خوانی کی بات کی جائے تو اس بازار میں پگڑی کی رقم پانچ سے 20 لاکھ روپے تک ہے۔ قصہ خوانی بازار میں قالین کی صنعت سے وابستہ افراد میں 91 فیصد افغان پناہ گزین تھے جبکہ چمڑے اور جوتوں کے کاروبار سے وابستہ افراد میں سے 33 فیصد کا تعلق بھی افغان باشندوں سے تھا۔ اسی طرح 29 فیصد ہوٹل اور ریسٹورنٹ کے کاروبار میں افغان پناہ گزینوں کا حصہ تھا جبکہ کپڑوں کے کاروبار میں 15 فیصد افغان تھے۔ افغان کالونی میں زیادہ تر استعمال شدہ اشیا بیچی جاتی ہیں جہاں 105 دکانوں میں صرف دو دکانیں مقامی افراد جبکہ باقی سب افغان پناہ گزینوں کی تھیں۔ پشاور کنٹونمنٹ کی بات کی جائے تو اس علاقے میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد کم رہی لیکن پھر بھی مختلف کاروبار میں ان کا حصہ موجود تھا۔ کنٹونمنٹ علاقے میں 29 فیصد کپڑے کے کاروبار کرنے والے افغان شہری تھے جبکہ کارپٹ اور نایاب اشیا کے کاروبار کرنے والوں میں 50 فیصد افغان پائے گئے اور اسی طرح دست کاری سے وابستہ افراد میں 31 فیصد افغان تھے۔ تیسرے نمبر پر یونیورسٹی ٹاؤن کا سروے کیا گیا تھا۔ اس علاقے میں کپڑے کے کاروبار سے وابستہ افراد میں 50 فیصد، کارپٹ صنعت میں 83 فیصد جبکہ ٹیلرنگ میں 53 فیصد افغان پناہ گزین شامل تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغان پناہ گزین جب سے یہاں آئے ہیں تو انہوں نے چھوٹا بڑا کاروبار شروع کیا۔ فروٹ منڈی جاکر پھل خرید کر ہتھ ریڑھی لگا کر پھل بیچتے تھے جبکہ زیادہ سرمایہ رکھنے والے افغان پناہ گزین بڑے کاروبار سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اب جب یہ واپس افغانستان جائیں گے تو وہاں وہ دوبارہ زیرو سے کاروبار شروع کریں گے لیکن یہاں کی معیشت پر بھی اس کا اثر ضرور پڑے گا کیونکہ یہاں پر مختلف مد میں وہ ٹیکس دیتے تھے اور معیشت میں ان کا ایک کردار ضرور تھا تاہم یہ اثر زیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔ افغان پناہ گزین جو خلا چھوڑیں گے تو پاکستان اور صوبے کے مختلف اطراف سے لوگ یہی جگہ دوبارہ بھر دیں گے۔ اس میں ایسے افغان پناہ گزین بھی تھے جو افغانستان اور پاکستان کے مابین درآمد برآمد کا کاروبار کرتے تھے، وہ کاروبار جاری رہے گا کیونکہ وہ تو پہلے بھی افغانستان سے مال لاتے تھے اور پاکستان سے وہاں پر بھیجتے تھے تو اب بھی ایسا ہی ہو گا۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اس سے معیشت میں خلا تو پیدا ضرور ہوگا لیکن یہ بعد میں دیکھا جائے گا کہ حقیقت میں اگر تمام پناہ گزینوں کو نکالا جاتا ہے تو تب ہی اس کے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا سمیت پنجاب اور سندھ میں افغان پناہ گزین معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں اور ان سب کو نکالنا بہت مشکل ہے لیکن نکالنے کے بعد اس کے معاشی اثرات کو دیکھا جائے گا۔ افغان پناہ گزینوں کی واپسی سے ان کی معاشی زندگی پر اثرات ضرور ہوں گے۔ یہاں خلا بھی پیدا ہوگا۔ قلیل مدت میں شاید ہمیں مقامی معیشت پر کوئی اثر نظر نہ آئے لیکن طویل مدت میں اگر جو کام یہ چھوڑ کر چلے گئے اور اس کی جگہ مقامی کسی شخص نے نہ لی تو اس کے اثرات کے بارے میں بعد میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کاروبار کرنے والے افراد خطرناک نسلی جہت کے خوف سے، فکر مند ہیں کہ اس فیصلے سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی معیشت پر منفی اثر پڑے گا۔ کیونکہ افغان سستی مزدوری کا ایک اہم ذریعہ تھے جو اب کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ حکام حکومت کے اس فیصلے کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، سیاستدانوں اور حقوق کے کارکنوں کے ایک گروپ نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے کمشنر برائے پناہ گزینوں سمیت بین الاقوامی اداروں نے بھی تنقید کی، پاکستان پر زور دیا کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے اور اسے واپس لے۔ جب کہ ملک کے اشرافیہ کے کاروباری حلقے زیادہ تر خاموش رہے، بعض پشتون اور بلوچ تاجر رہنماؤں نے گہرے خدشات کا اظہار کیا۔ یہ فیصلہ پہلے سے ہی کمزور صوبوں کے لیے چیلنجز کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ ماہرین نے حکومت کے بنیادی نقطہ نظر کو ناقص قرار دیا۔ معیشت کو ترجیح دینے والے تمام بلند و بانگ بیانات کا کوئی فائدہ نہیں ہے جب اہم پالیسی فیصلے اقتصادی اثرات پر غور کیے بغیر کیے جاتے ہیں. اس فیصلے کی وجہ سے افغان حکومت کی بھارت سے قربت بڑھے گی۔ جو معاشی اور سیاسی نقطہ نظر سے ہمارے لئے مفید نہیں ہوگا۔