”گل کرنی“ سے ”گل ہو گئی اے“ تک

سموگ اور سیاسی سموگ کے باوجود سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے، صف بندیاں وجود میں آ رہی ہیں تو دوسری طرف چند روز قبل ایک دھاگے میں پروئے جانے والے تحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اونٹ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوغت کی منزلیں طے کرتا قدرے سیانا ہو چکا ہے ضروری نہیں ساربان اسے جہاں بٹھانا چاہے وہیں بیٹھ جائے اسکی مرضی نہ ہو تو کھڑے کھڑے دم اُٹھا کر رنگ میں بھنگ بھی ڈال سکتا ہے۔

ن لیگ کے صدر تو جناب شہباز شریف ہیں لیکن حکم جناب نواز شریف کا چلتا ہے۔ وزیر اعظم بنائے جانے پر بھی کیفیت وہی تھی جو نیازی صاحب کی اپنی حکومت میں تھی وقت کے صدر مملکت جن کی شرافت کا اک زمانہ قائل ہے، نیازی صاحب کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ بعض مقامات تو ایسے بھی آئے کہ لاہور یاترا کے بعد ابھی اسلام آباد پہنچے ہی تھے کہ نیا بلاوا آ گیا کل پھر حاضری لگواؤ، جناب صدر تو لاہور اسلام آباد کے درمیان محو پرواز رہتے تھے۔ شہباز شریف صاحب کو لندن حاضر ہونا پڑتا تھا مگر پی ڈی ایم حکومت کی خوش قسمtی انہیں اردو اور انگریزی کے سفر کے دوران کمر کی تکلیف نہیں ہوئی خدا نخواستہ ایسا ہو جاتا تو نیا وزیر اعظم کہاں سے ڈھونڈتے۔ امیدوار تو بہت تھے لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ چند روز کیلئے بھی یہ منصب کسی اور کو دے دیا گیا تو ن لیگ میں وزیر اعظم کے عہدے کا ایک نیا امیدوار سامنے آ جائے گا۔ پس ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھایا گیا ہر سیڑھی اترتے چڑھتے حد درجہ احتیاط برتی گئی کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ یہ الگ بات کہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔

لیگی قیادت نے پہلے راؤنڈ میں صنعتی شہروں کو ٹارگٹ کر رکھا ہے تاجروں سے قربتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ سیالکوٹ کا دوسرا پھیرا ہے، گوجر انوالہ، فیصل آباد، شیخوپورہ کے بعد جنوبی پنجاب کا قصد کیا جائے گا۔ ادھر فوری طور پر رخ نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ استحکام پاکستان پارٹی کا چال چلن دیکھنا ہے۔ سابق لیگی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ایک نجی محفل میں گفتگو  نے سیاسی ارتعاش پیدا کیا ہے لیکن لیگی پالیسی کے مطابق حکم یہی ہے کہ اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی جائے کسی سطح پر کوئی جواب نہ دیا جائے۔ شاہد خاقان عباسی کے اپنی پارٹی کے اندر اختلافات اسی روز شروع ہو گئے تھے جس روز انہیں باقی ماندہ ٹرم کیلئے وزیر اعظم پاکستان بنایا گیا تھا۔ شکوؤں کی ابتدا یہاں سے ہوئی کہ انہوں نے با اختیار وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہ کردار ادا کیوں نہ کیا جس سے شریف خاندان کی مشکلات کم ہو سکتیں یا ختم ہو جاتیں۔ یہ داستان اب راز نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کے ہاتھ میں وہ طاقت نہ تھی، طاقت کا مرکز و محور کہیں اور تھا۔ 2013 سے بہت قبل بہت کچھ طے ہو چکا تھا پھر جو کچھ ہوا وہ سکرپٹ کے مطابق تھا۔ نیازی حکومت بننے اور جناب نواز شریف کے لندن رخصت ہو جانے کے بعد شاہد خاقان عباسی کچھ عرصہ گوشہ گمنامی میں رہے لیکن جب واضح ہو گیا اب نیازی حکومت اور اسے لانے والے ایک گھاٹ پر ہنسی خوشی پانی پی رہے ہیں تو پھر انہوں نے سیاسی سرگرمیاں شروع کیں وہ ایک سے زائد مرتبہ لندن گئے لیکن انکے حوالے سے سرد مہری کا رویہ اختیار کیا گیا۔ نیازی حکومت کے خاتمے کے بعد انکی طرف سے کچھ ایسے بیان آئے جنہیں پارٹی لائن سے انحراف کے زمرے میں ڈالا جا سکتا ہے لیکن انہوں نے کوئی غلط بات نہ کی بلکہ پارٹی میں رہتے ہوئے اپنے اصولی موقف کا اظہار کیا جسے کسی حد تک پذیرائی بھی ملی۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی میں کسی حد تک اختلاف رائے کو برداشت کیا جاتا ہے دیگر جماعتوں میں یہ کلچر ترویج نہیں پا سکا۔ شاہد خاقان عباسی کے ساتھ کچھ اور دوست بھی آ ملے، کچھ دوستوں نے اختلافات ختم کر کے ایک مرتبہ پھر ساتھ چلنے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی لیکن ایک دھڑا ایسا نہ چاہتا تھا اسکا مشورہ تھا کہ اسی مرحلے پر جان چھڑا لی جائے، کچھ دن ایسے بھی آئے جب خبر گرم رہی کہ شاہد خاقان اپنے سیاسی کیریئر کے حوالے سے اہم فیصلہ کرنے والے ہیں وہ کسی اور پارٹی میں جائینگے یا ایک نئی پارٹی بنانے کا اعلان کریں گے۔ شاہد خاقان عباسی کی طرف سے دونوں میں سے ایک راستے کا انتخاب کیا گیا وہ کل کسی بھی فیصلے کا اعلان کر سکتے ہیں لیکن فی الحال انہوں نے آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں مجھ جیسے شخص کی موجودہ نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا اور خوب کہا کہ کل تک جو بات دوسروں کیلئے غلط تھی وہ آج ہمارے لیے بھی غلط ہے، درست نہیں ہو سکتی۔ انکے مطابق آئندہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی سیاسی جماعت بہت واضح اکثریت حاصل نہ کر پائے گی۔ انہوں نے کھلے لفظوں میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ حکومت بہت کم عرصہ اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی۔ عباسی صاحب کے تجزیے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شاہد خاقان عباسی کی کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ انکا سابق وزیر اعظم ہونا ہے۔ ہر سیاسی جماعت میں اس عہدے کیلئے ایک سے زائد امیدوار موجود ہیں پھر کوئی سیاسی جماعت یا اس میں موجود کوئی موثر دھڑا کیوں چاہے گا کہ پارٹی کے باہر سے کوئی اور آئے اور اس عہدے کیلئے اپنا استحقاق جتائے۔ یہ بات عام فہم ہے کہ ماضی میں وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر فائز رہنے والا آئندہ سیاست وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کیلئے تو ہر گز نہیں کرے گا۔ اس معاملے میں شہباز شریف کو استثنیٰ دیا جا سکتا ہے وہ اگر صدر پاکستان بھی بنا دیئے جائیں اور انہیں اسکے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کا کہا جائے تو وہ اس عہدے کو ہنسی خوشی قبول کر لیں گے۔ انکے ایسا کرنے کی وجوہات لا تعداد ہیں۔ بڑی وجہ حکم حاکم ہو گا جس سے سرتابی انہوں نے اس وقت نہ کی جب 1999 میں جنرل مشرف کی طرف سے لیگی حکومت ختم کرنے اور اپنے پاؤں جما لینے کے بعد سول حکومت بنانے کا مرحلہ آیا تو جنرل مشرف کیلئے وہ قابل قبول تھے لیکن اس کڑے وقت میں انہوں نے درست فیصلہ کیا۔ نیازی حکومت بنانے سے کئی برس پہلے گلوکار ابرار الحق لہک لہک کے گایا کرتے تھے ”اساں ڈیڈی نال تیری گل کرنی“ آج لیگی راہنما کہتے نظر آتے ہیں ”ساڈی گل ہو گئی اے“۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ بات شروع ہوتے دیر لگتی ہے نہ بات بگڑتے۔ لہٰذا بات ہو جانے پر کیسا اترانا، بات تو پہلے بھی کئی مرتبہ ہوئی تھی۔